لاہور (ویب ڈیسک) ہم بنیادی طور پر تماش بیں ہیں۔ ڈگڈگی بجتی ہے، تماشا ہوتا ہے، تالیاں بجتی ہیں اور ہم گھروں کی راہ لیتے ہیں مداری کے اشاروں پر رقصاں یہ جسم سوال تک نہیں پوچھتے کہ ناچنا کب تک ہے اور رقص کیسا ہے۔ مداری جانتا ہے کہ یہ تماشا ختم ہوا تو اس کا روزگار نامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بھی جاتا رہے گا اور اس کی ذات بھی توجہ کی محور نہیں رہے گی۔ احساس سے مبرا اس معاشرے میں ہر روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہے لیکن ہم بے حس، جذبات سے عاری دو لائنیں پڑھتے ہیں، دیکھتے ہیں۔۔۔ اور آگے نکل جاتے ہیں ۔ گذشتہ ہفتے چائے کی پیالی میں طوفان تھا کہ سانحہ ساہیوال میں بے گناہوں کے قتل کا انصاف کب ملے گا؟ واواکار تھی کہ خلیل، ذیشان، نبیلہ اور تیرہ سالہ اریبہ کے قاتل کب گرفتار ہوں گے؟ ٹی وی اسکرینوں پر چلنے والے لال رنگ کے بریکنگ نیوز کے پھٹے چیخ رہے تھے۔ پروگراموں کے میزبان گلو گیر لہجوں میں نقلی مکالمے ادا کر رہے تھے۔ ٹکر کی جنگ جاری تھی۔ لگتا تھا کہ کہیں اور نہ سہی، مگر ٹی وی پر تو انصاف ہو ہی جائے گا۔ پھر وہی ہوا۔ وزیراعظم نے وزیراعلی کو اسلام آباد طلب کر لیا، پولیس سے رپورٹس منگوا لی گئیں۔ انصاف جلد از جلد یقینی بنانے کی ہدایات ہیں۔جاری کی گئیں اور پھر فائل بند ۔۔ایوان صدر کے دروازے پر لگی انصاف کی گھنٹی بھی بج اٹھی۔ خلیل اور ذیشان کے خاندانوں کو اسلام آباد بلا لیا گیا۔ شاہراہ دستور پر خوب گھمایا پھرایا گیااور پھر معلوم ہوا کہ صدر صاحب کراچی میں بلایا ایوان صدر نے نہیں بلکہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے تھا۔ یہ تماشا انصاف کی عدالتوں کے سامنے ہوا مگر صرف ایک ہفتے میں یہ عدالتیں کسی اور بریکنگ میں مصروف تھیں انصاف کے پیمانے پر پورا اترنے والی حکومت کو یاد بھی نہیں کہ ان کے دور اقتدار کے پہلے چھہ ماہ میں ہی ان کی حکومت کے لئے ٹیسٹ کیس سامنے آگیا۔ حیران کن بات ہے کہ تقریباً دو ہفتے گزر جانے کے باوجود تا حال نہ تو فورانزک رپورٹس سامنے آئی ہیں اور نہ ہی تحقیقات میں پیش رفت۔ جے آئی ٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ جلد انصاف کے سارے نعرے دم توڑ چکے ہیں اور وزیروں کے تبدیلی بارے بے ہنگم شور میں کوئی آواز سنائی نہیں دے پا رہی ۔ فرض کریں یہ واقعہ، جس میں چار نہتے افراد کو محض شک کی بنیاد پر گرفتار نہیں، قتل کر دیا گیا ہو، کسی اور جماعت کے دور میں ہوتا۔ جیسا کہ گذشتہ دور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا، تو تحریک انصاف کا کیا رد عمل تھا۔۔۔ اور کیا ردعمل ہوتا، وزیراعظم، جو اُس وقت اپوزیشن میں تھے، ہر روز ایک پریس کانفرنس کرتے۔ ہر ٹی وی ٹاک شو پر نمودار ہوتے اور انصاف کا تقاضا کرتے۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔ انھیں اقتدار مل چکا ہے اور کم از کم اتنے سے انصاف کے لئے اختیار بھی۔ ہمیں وہی والا کپتان واپس چاہئیے جو کم از کم مظلوموں کے لیے پریس کانفرنس تو کر لیتا تھا۔ اور خاتون اوّل بھی تو بہت حساس دل کی خاتون ہیں نا خدارا خلیل اور ذیشان کے خاندان کو محض مخالف سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کی سزا نہ دیں۔ خدارا خلیل کے یتیم بچوں کو بے سہارا نہ کریں، ان معصوموں کے مستقبل کو بچائیں۔ اے کاش خاتون اوّل بس ایک بار ان بچوں کی خاطر کپتان کا کندھا ہلا کر کہیں کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے اپوزیشن میں ہی آ جائیں اور ایک پریس کانفرنس ان بچوں کے لئے ہی کر دیں۔۔۔ شاید انھیں انصاف مل جائے۔