لاہور (ویب ڈیسک) جب کسی فلم کو مشہور کرانا ہو تو اُس پر پابندی لگا دیں یا اُس کو سینسر بورڈ میں ہی روک لیں۔ کھڑکی توڑ ہجوم کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔فلم یا کسی کمپنی کی مشہوری کے لیے اسے متنازع بنا دیا جائے تو یقین مانیں کہ کبھی نہ چلنے والی کمپنیاں بھی دوڑنے لگتی ہیں۔ نامور خاتون کالم نگار عاصمہ شیرازی بی بی سی کے لیے اپنے ہفتہ وار کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔وطن عزیز میں بھی چند فلموں اور ٹیپوں کا دور دورہ ہے۔ ٹیپ چلتی ہے اور رُک جاتی ہے، اگلے سیکوئل کا انتظار شروع ہو جا تا ہے، ایک فلم اترتی نہیں کہ مملکت میں نئی فلم کا ٹریلر چل پڑتا ہے۔فلم کا سکرپٹ کیسا ہے، کہانی جاندار ہے یا نہیں، موسیقی کیسی ہے اور فلم میں کتنا انگریزی والا ’فیٹ‘ ڈالنا ہے یہ سب بڑے ہی سلیقے سے ہو رہا ہے اور جناب فلمیں مقبول ہوتی چلی جا رہی ہیں۔کچھ فلمیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور کچھ کی تیاری ہے۔ وہ منظر عام پر آئیں گی یا نہیں واللہ علم مگر یہ تو طے ہے کہ نظام نہ چلنے والی فلموں پر کھڑا ہے۔فلم انڈسٹری کی سب سے بڑی اور اہم فلم کا سپانسر بھی سب سے جاندار ہوتا ہے۔انڈسٹری میں کس ہیرو یا ہیروئن کو کب اور کہاں کتنا وقت دینا ہے سب اُس کے ہاتھ میں ہے۔تمام کردار وقت پر آتے ہیں دو بول بول کر نکل جاتے ہیں۔ ہدایتکار اور پروڈیوسر فلموں کی مقبولیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔پردے کے منظر پر سرکتے کردار پل دو پل کی شہرت کو اپنے نصیب کی آوری سمجھتے ہیں اور یوں یہ کہانی چلتی رہتی ہے۔اب آپ اندازہ لگا لیں کہ آج کل منظر عام پر آنے والی فلمیں کس کی پروڈکشن ہیں اور اُن کے منظر عام پر آنے سے فائدہ کس کا ہے؟ہدایتکار کی بہترین پیش کش سے نصیب آوری کس کی ہو گی؟ کردار مگر بہت تیزی سے بدلیں گے۔ سکرین پر نظریں جمائے رکھیے کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے۔