طرابلس (انٹرنیشنل ڈیسک) لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں واقع وزارتِ خارجہ کے دفتر پر شدت پسندوں کے حملے میں تین حملہ آوروں سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔منگل کو کیے جانے والے حملے میں 21 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرلی ہے۔ حکام کے مطابق حملے کا آغاز وزارت کے نزدیک ایک کار بم دھماکے سے ہوا تھا جس کے بعد عمارت کی سکیورٹی پر مامور بیشتر اہلکاروں کی توجہ اس طرف مبذول ہوگئی تھی۔لیبیا کی اسپیشل فورسز کے ترجمان طارق الدوس نے خبر رساں ادارے “اے ایف پی” کو بتایا ہے کہ کار بم دھماکے کے بعد ایک خود کش حملہ آور نے عمارت کی دوسری منزل پر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ان کے بقول اسی دوران ایک اور حملہ آور اپنے پاس موجود اس بریف کیس کے پھٹنے سے مارا گیا جس میں بارود بھرا ہوا تھا۔ترجمان کے مطابق تیسرے حملہ آور کو سکیورٹی اہلکاروں نے عمارت کے باہر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔لیبیا کے وزیرِ خارجہ طاہر سیالۃ نے بتایا ہے کہ واقعے میں حملہ آوروں کے علاوہ تین افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں وزارتِ خارجہ کے ایک شعبے کے سربراہ ابراہیم الشعیبی بھی شامل ہیں۔مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ تنظیم نے سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہاہے کہ حملہ اس کے تین جنگجووں نے کیا جو خودکش جیکٹوں اور خود کار ہتھیاروں سے لیس تھے۔حملے کے بعد ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیبیا کے وزیرِ داخلہ فتحی بش آغا نے اعتراف کیا کہ لیبیا میں صورتِ حال ایک بار پھر خراب اور حکومت کے قابو سے باہر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کی خراب صورتِ حال کے باعث لیبیا داعش کے لیے “زرخیز زمین” ثابت ہو رہا ہے۔لیبیا میں 2011ء میں مغربی ملکوں کی فوجی مداخلت کے نتیجے میں معمر قذافی کے طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد سے خانہ جنگی جاری ہے جس کے دوران شدت پسندوں کو بھی اپنے قدم جمانے کا موقع ملا ہے۔ملک میں اس وقت دو متحارب حکومتیں، کئی ملیشیائیں، قبائل اور جہادی تنظیمیں مختلف علاقوں، بندرگاہوں اور تیل کی تنصیبات پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔طرابلس میں قائم “جی این اے” (گورنمنٹ آف نیشنل اکورڈ) کی حکومت کو اقوامِ متحدہ کی حمایت حاصل ہے جو 2015ء میں عالمی ادارے اور مغربی ملکوں کی کوششوں سے تشکیل پائی تھی۔لیکن ملک کے مشرقی حصے میں لیبیا کی فوج کے جنرل خلیفہ ہفتار اور ان کے حامیوں نے ایک متبادل حکومت قائم کر رکھی ہے جو “جی این اے” کا اختیار قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔رواں سال مئی میں فرانس کی کوششوں سے دونوں حکومتوں اور دیگر متحارب فریقوں نے سال کے اختتام تک ملک بھر میں انتخابات کرانے پر اتفاق کیا تھا۔لیکن مسلسل عدم استحکام، علاقوں پر قبضے کے لیے جاری لڑائیوں اور سیاسی تقسیم کے باعث انتخابات مسلسل التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔