تحریر : شاہد شکیل
بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین کے علاوہ ٹیچرز کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ بچوں کو سکولوں میں نہ صرف نصابی کتب کی تعلیم دینے کے علاوہ انہیں اخلاقی،معاشی اوردیگر دنیاوی اعمال کے بارے میں تفصیلاً آگاہ کرنا استاد کے فرائض میں شامل ہے ۔ پِیسا۔پروگرام فار انٹرنیشنل سٹوڈنٹ اسیسمنٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے مختلف مسائل سے دوچار ہونے کے سبب پڑھائی میں زیادہ تر کمزور ہوتے ہیں،لڑکیوں کو بھی پڑھائی خاص طور پر ریاضی اور سائنس میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر تقریباً تمام ممالک میں لڑکوں کو ریاضی اور سائنس پر عبور حاصل کرنے میں انتھک محنت کرنی پڑتی ہے جبکہ لڑکیوں کو سکول کی کارکردگی میں آعلیٰ سٹوڈنٹس شمار کیا جاتا ہے ایسا کیوں ہے؟رپورٹ کے مطابق بنیادی طور پر لڑکے اوسطاً تین کیٹاگریز تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جن میں ریاضی ، مطالعہ اور سائنس کے مضامین سر فہرست ہیں ،لڑکوں کا شمار چودہ فیصد جبکہ لڑکیاں نو فیصد اوسطاً سطح پر ہیں
کیونکہ سکولوں میں لڑکے لڑکیوں کے مقابلے میں پڑھائی پر کم توجہ دیتے اور کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے سبب خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم سے کم مارکس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ منفی سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہیں ۔او ای سی ڈی۔آرگنائزیشن فار اکنامکس کو آپریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے تین ممالک کولمبیا ، کوسٹا ریکا اور بھارت کے صوبے ہما چل پردیش میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی بہترین کارکردگی شمار کی گئی لیکن دوسری طرف ادارے کا کہنا ہے سکول چھوڑنے یعنی نامکمل پڑھائی میں بھی لڑکوں کی کثیر تعداد شامل ہے۔ادارے کا کہنا ہے لڑکوں کا رحجان زیادہ تر کمپیوٹر اور دیگر میڈیا کا بہت زیادہ استعمال انہیں پڑھائی اور مطالعہ سے دور لے جاتا ہے ،ماہر تعلیم نے بچوں کے رویے کا بھی مطالعہ کیا جس میں بتایا گیا کہ واضح طور پر صنفی اختلافات موجود ہیں
اسی وجہ سے لڑکے تعلیم حاصل نہیں کرتے مثلاً لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے اوسطاً ہفتہ بھر میں ایک گھنٹہ کم ہوم ورک کرتے ہیں جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے کئی ممالک میں لڑکے تعلیم کو فرض نہیں بلکہ ناخوشگوار عمل سمجھتے ہیں اور کئی ممالک میں والدین لڑکوں کی بجائے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو اولین فرض سمجھتے ہوئے زیادہ توجہ دیتے ہیںعلاوہ ازیں تفریحی سرگر میوں میں بھی واضح طور پر اختلافات موجود ہیں فارغ اوقات میں لڑکیاں گھریلو کام کاج کے علاوہ ہوم ورک یا تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں اور لڑکے کمپیوٹرز گیمز وغیرہ میں وقت ضائع کرتے ہیںاور مطالعے یا ہوم ورک پر کم توجہ دیتے ہیں۔کتابوں کا مطالعہ ہی بنیادی عمل ہے جس سے سیکھا جا سکتا ہے کیونکہ ایک بچہ اگر پڑھنے میں مہارت حاصل نہیں کرے گا تو اسکی ذہنی معلومات میں اضافہ نہیں ہو گا اور تمام راستے محدود ہوتے ہوئے ایک دن بند ہو جائیں گے۔
لکسمبرگ کی یونیورسٹی کے محقیقین کا تجزیہ ہے کہ بہت سے لڑکے دقیانوسی تصورات اور وحشت میں مبتلا رہنے سے بھی سیکھنے کے عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں ان پر عجیب سی کیفیت طاری رہتی ہے سوئیزر لینڈ کے شہر برن میں آٹھ سو بہتر بچوں جن کی عمریں تیرہ اور چودہ سال تھیں تحقیق کی گئی جس سے یہ نتائج سامنے آئے کہ نفسیاتی ایڈجسٹمنٹ بھی تعلیمی کارکردگی متاثر کرتی ہے، بہت سے بچے وحشت کا شکار رہتے ہوئے اپنے آپ کو اکیلا اور اجنبی سمجھتے ہیں وہ سمجھ نہیں پاتے کہ پڑھائی کیوں اچھی یا لازمی ہے اور کس کام آ سکتی ہے کیوں مطالعہ کر نا یامضا مین اور ہوم ورک اہم ہیں اور کیوں لڑکیاں لڑکوں سے سبقت لے جاتی ہیںکیوں لڑکوں کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیا جاتا ہے وغیرہ ،ان تمام نتائج سے اخذ کیا گیا کہ مختلف مسائل درپیش آنے سے بچے پڑھائی سے دور بھاگتے ہیں سکول کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی بجائے کنارہ کش ہوتے ہیں
لڑکیوں کو اپنے سے بہتر سمجھنے کی وجہ سے سکول کو وقت ضائع کرنے کا ادارہ سمجھتے ہیں۔او ای سی ڈی کے مطابق لڑکوں کی سکولوں میں کارکردگی بہتر بنانے میں والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور دوطرفہ مسائل کے حل نکالنے ہونگے والدین کا پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ سکول ٹیچرز یا ایڈمنسٹریشن سے تفصیلا ً بات کی جائے بچوں کے ذہنوں سے دقیانوسی تصورات اور تعصبات سے چھٹکارا پانا اہم ہے اور ان مسائل کے حل ہونے کے بعد ہی لڑکے لڑکیوں کے مد مقابل کھڑے ہو سکتے ہیں
علاوہ ازیں کلاس اٹینڈ کرنااور ٹیچرز کا رویہ بھی ہمدردانہ اور بااخلاق ہونا لازمی ہے تاکہ بچے تعلیم کی طرف توجہ دیں زور زبردستی یا تشدد کلچر کے علاوہ دوطرفہ ریسپیکٹ لازمی ہے بچوں کو تحمل مزاجی اور صبر وبرداشت کے تحت ہی تعلیم کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے بچوں کی تما م مضامین میں حوصلہ افزائی کرنا ہو گی اور استادوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا سب سے بڑھ کر بچوں کو انکی حدود کا واضع طور پر آگاہ کرنا اہم ہے۔
تحریر : شاہد شکیل