تحریر : عارف کسانہ
کسی بھی لکھنے والے کے لیے قارئین کی طرف سے ستائش اور پذیرائی نہ صرف حوصلہ افزائی کا باعث ہوتی ہے بلکہ وہ مزید توانائی اور جذبہ محرکہ کا باعث ہوتی ہے جس سے نہ صرف لکھنے میں تسلسل رہتا ہے بلکہ مزید بہتری آتی ہے۔ اور اگر یہی ستائش علم و ادب کی دنیا کے کسی معروف نام کی طرف سے ہو تو پھر اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔میرے لیے یہ امر باعث مسرت و اطمینان ہے کہ بہت سے معروف کالم نگاروں اور اہل علم نے ہمیشہ میری حوصلہ افرائی کی جس کی وجہ سے لکھنے کا یہ سلسلہ اپنی تمام تر پیشہ وارانہ اور دیگر مصروفیات کے باوجود جاری ہے۔ انہی میں سے ایک نام پروفیسر محمد شریف بقا کا ہے ۔ ان کے علمی و تحقیقی کام کی بدولت کون ہے جو انہیں نہیں جانتا۔ قرآنی تعلیمات ،تحریک پاکستان، فکر اقبال،حیات قائد اعظم اور دوسرے بہت سے موضوعات پر اُن کی ساٹھ سے زائد کتابیں نہ صرف چھپ چکی ہیں بلکہ انہیں مقبولیت عام حاصل ہے۔
ان کی کئی کتب اور اخبارات میں کالم پڑھنے کے بعد میری خواہش تھی کہ اُن سے رابطہ ہوسکے تاکہ اُن کے علم سے مزید استفادہ کیا جاسکے کہ اچانک ایک دن ان کا فون آگیا جو میرے لیے باعث حیرت اورخوشی تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ اخبارا ت میں میرے کالم پڑھنے کے بعد انہوں نے خود ہی اخبار کے دفترسے میرا ٹیلی فون نمبر لیا او ر اب بات کررہے ہیں۔یہ میرے لیے بہت بڑی ستائش اور ایک اعزاز سے کم نہیں تھا۔ پروفیسر محمد شریف بقاایک ہمہ جہت شخصیت اور اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ وہ بلا شبہ نابغہ عصر ہیں۔ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص میں بہت سی صلاحتیں اور خوبیاں یکجا ہوں۔ وہ ایک ہی وقت میں محقق، قرآنِ حکیم کے عالم، تاریخ دان، شاعر، بچوں کے مصنف، بلند پایہ صحافی،عالمِ دین، ماہرِ اقبالیات، تحریکِ پاکستان کے مستند مورخ ، کالم نگار،مقرر، دانشور اور ادیب ہیں ۔ علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آبادمیں ایک طالب علم اُن کی شخصیت اور کام کے بارے میں پی ایچ ڈی کررہا ہے اوراس نے اپنا تحقیقی مقالہ جمع کرادیا ہے۔
یہ میرے لیے بہت بڑی سعادت ہے کہ میں اُن کے لیے کچھ الفاظ ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں۔ متذکرہ بالا تمام خوبیوں ایک طرف سب سے بڑھ کر کہ وہ بہت ہی انسان دوست ، مہمان نواز، ملنسار اور درویش انسان ہیں۔ بہت سے معروف لوگوں کو جب قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اکثر اوقات اُن کی نجی زندگی میں اُن افکار کی کہیں جھلک نہیں ہوتی جسے تو عام زندگی میں زبان پر لاتے ہیں لیکن شریف بقا اس سے مبرا ہیں۔ اُن سے ملنے کے بعد اُن کی شخصیت میں وہی کرادر نظر آیا جس کے وہ نقیب ہیں۔ جب بھی مجھے لندن جانا ہوتا ہے ، محترم بقا صاحب سے ملاقات لازم ہوتی ہے۔ اور وہ بھی اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود وہ بہت خوش دلی سے نہ صرف ملتے ہیں بلکہ سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں باہر تک چھوڑنے آتے ہیں ۔ منکسر المزاجی اور خوش گفاری اُن کی خوبیاں ہیں۔ اُن کی محفل میں کسی کوبوریت نہیں ہوتی اور ہر عمر اور ہر ذہنی سطح کے لوگوں کے ساتھ وہ دوستانہ ماحول میں گفتگو کرتے ہیں۔
آپ علامہ اقبال کے سچے شیدائی اور پیامبر ِاقبال ہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں فکر اقبال کو روشناس کرانے کے لئے انہوں بہت اہم کردار ادا کیاہے ۔ مجلس اقبال لندن ان کی سربراہی میں علامہ کے پیغام کو عام کررہی ہے۔ برطانیہ میں پروان چڑھنے والی ہماری نئی نسل چونکہ اردو سے دور ہوتی جارہی ہے اس لئے انہوں نے کلام اقبال اور فکر اقبال کو انگریزی زبان میں بہت سی کتابوں کی صورت میں لکھ دیا ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی پیغام اقبال سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ علامہ اقبال کے پیغام اور فکرِ اقبال کو سمجھنے کے لیے اُن کی تصانیف بہت ہی اہم ہیں۔ کلامِ اقبال اور خطبات اقبال کو موضوعات کے اعتبار سے ترتیب دے کر انہوں نے اقبال فہمی کو اور بھی آسان بنا دیا ہے۔ خطباتِ اقبال پر بہت سی کتب موجود ہیں مگر آپ نے علامہ کے خطبات کو جس سہل اور دلنشین انداز میں اور قارئین کی سہولت کے لیے مضامین کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے وہ سب سے منفرد ہے۔
تحریکِ پاکستان اور قائدِ اعظم کی زندگی پر بہت تحقیقی کام کرکے ایک عظیم سرمایہ مہیا کردیا ہے۔ جن لوگوں کو شائد سیکولرازم کے معنی بھی معلوم نہیں وہ بھی قائدِ اعظم کو سیکولر قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں مگر آپ نے اپنی کتاب قائدِ اعظم کے اسلامی افکار لکھ کر ایک طرف اُن سب کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کردیئے اور دوسری جانب نئی نسل کو اصل صورتِ حال سے روشناس کرایا ہے۔ مصورِ پاکستان اور بانی پاکستان کے ساتھ ساتھ آپ نے نقاشِ پاکستان چوہدری رحمت علی کی قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد اور خدمات کے کئی گمشدہ گوشے بھی ہمارے سامنے پیش کیے ہیں۔ یہ چوہدری رحمت علی کی پاکستان موومنٹ ہی تھی جس نے اسلامیان ہند کی منزل کا تعین پاکستان کی صورت میں کیا تھا۔
دورِ حاضر میں بچوں کے ادب کے لیے بہت ہی کم کام ہورہا ہے اورمستقبل کی نسل کو نظر اندازکیا جارہا ہے۔معروف ادیب اور لکھاری توبچوں کے لیے لکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن پروفیسر شریف بقا نے اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے مستقبل کے معماروں کے لیے بہت عمدہ، آسان اور معیاری لکھا ہے ۔اردو زبان نہ سمجھنے والے بچوں کے لیے انہوں نے کلام اقبال بالخصوص علامہ کی بچوں کے بارے نظموں کی انگریزی میں وضاحت کرتے ہوتے متعدد کتب لکھی ہیں۔ جب میں نے بچوں کے لیے اسلامی کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا تو انہوں نے بہت مفید مشورے دیے اور انہیں کتابی شکل میں شائئع کرنے پر زور دیا۔ اگر میری جانب سے بچوں کے لیے قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی کہانیوں کی کتاب منظرِ عام پر آئی تو اس میں آپ کی مساعی شامل ہوگی۔
اسلام، رسول اکرم اور قرآنِ حکیم پر آپ نے نہایت اہم کتب لکھی ہیں۔ اس فرقہ واریت کے دور میں آپ نے جس اندازسے لکھا ہے وہ بلا شبہ قابل تحسین ہے۔وہ نہ صرف یورپ میں پروان چڑھنے والی نوجوان نسل کی سوچ اور یہاں کے مسلمانوں کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں بلکہ اُنہوں نے فکری رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کیا ہے۔مغربی مفکرین کی رسول پاک کے بارے میں آراء پر مشتمل اُن کی انگریزی میں ایک لاجواب کتاب ہے۔ قرآنی موضوعات اور Quranic Topics قرآنِ حکیم کوتصریف آیات کے اصول سمجھنے کے لیے ایسی کتب ہیں کہ ان کا ہر گھر میں ہونا ضروری ہے۔ سویڈن میںآ ٹھ سال سے قرآنِ حکیم کو مضامین کے اعتبار سے سمجھنے کی کوشش سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کے تحت ہورہی ہے اور ماہانہ درس قرآن منعقد کیا جاتا ہے۔ قرآن فہمی کی کوشش میں آپ کی کتب نہایت مددگار ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر جب بھی کسی مسئلہ کی وضاحت درکار ہو تو آپ سے ہی رجوع کرتا ہوں اور کئی معاملات میں اگر اختلافِ رائے بھی ہو تو انہوں نے بڑے تحمل سے بات سُنی اورانہوں نے کبھی انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو عمرِ خضر دے تاکہ وہ ہمارے لیے مزید علم کے موتی بکھیرتے چلے جائیں۔
اکیاسی سال عمر ہونے کے باوجود وہ اب بھی علمی و تحقیقی کام اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے باوجود وہ اپنے اہل خانہ اور گھریلو معاملات میں عدم توجہی کا شکار نہیں۔ جب اس بارے میں اُن سے بات ہوئی تو انہوں نے جو وضاحت کی وہ میرے بلکہ سب کے لیے مشعل راہ ہے، کہاکہ تحریر و تقریر اور گھر سے باہردوسرے جتنے بھی کام ہیں وہ اُسی طرح ہیں جیسے عبادت میں نوافل ہوتے ہیں جبکہ گھر اور اہل خانہ کی ذمہ داریاں فرائض ہیں۔ فرائض کے بارے میں بارگاہ خداوندی میں پوچھا جائے گا لیکن نوافل کے بارے میں سوال نہیں ہوگا اسی لیے میری پہلی ترجیح میرے فرائض ہیں یعنی میری بیوی بچے اور اہل خانہ ہیں۔ اُن کی اہلیہ کی عمر اسی سال ہے۔وہ کچھ عرصہ سے کافی علیل ہیں اور بستر پر ہی ہیں۔ بقا صاحب کہنے لگے اُن کی تیمار داری میں کبھی غفلت یا سُستی نہیں۔ وہ ہسپتال میں ہوں یا گھر پر ہمیشہ اُن کی خوش دلی سے خدمت کرتا ہوں اور بعض اوقات وہ رات کو بھی اٹھائیں تو کبھی ناگواری نہیں ہوتی۔
اپنی اہلیہ کی صحت کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیرونی مصروفیات محدود کردی ہیں۔ علم و کردار کی جویکجائی بقا صاحب میں نظر آئی وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے ۔ ہمارے رسول پاک ﷺ نے بھی تو یہی فرمایا ہے کہ تم میں سے جو جس کا نگہبان ہے اُس سے اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ رحمت عالم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے ۔ فرض اور نفل کی اس تقسیم کو اگر ہم سمجھ پائیں تو ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن سکتے ہیں۔
تحریر : عارف کسانہ