عرفان اللہ مروت کے پیپلزپارٹی جوائن کرنے پر اعتراضات میں کوئی جان نہیں ہے۔ میرے لیے یہ اہم نہیں کہ انھوں نے پیپلزپارٹی جوائن کی ہے کہ نہیں۔ ان کی اور پیپلزپارٹی کے تنازعہ کی کہانی پرانی ہو گئی ہے۔ الزام ثابت نہیں ہوا۔ دشمنی ختم ہو گئی۔ اب صلح میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اگر پیپلزپارٹی اقتدار کے لیے چوہدری برادران سے صلح کر سکتی ہے تو پھر عرفان اللہ مروت سے صلح میں کیا برائی ہے۔
یہ درست ہے کہ بیچارے عرفان اللہ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت پر اتنا شور مچا کہ خود پیپلزپارٹی نے وضاحت کر دی ہے کہ وہ شامل نہیں ہو رہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے اور پیپلزپارٹی کے روابط موجود ہیں۔ جو آیندہ کوئی نہ کوئی شکل اختیار کر لے گا۔
لوگ مانیں یا نہ مانیں لیکن آصف زرداری نے اگلے انتخابات کے بعد ملک کا وزیر اعظم بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ بات وہ اپنے قریبی رفقا اور بچوں کو بھی سمجھانے کی کو شش کر رہے ہیں کہ وہ ملک کے اگلے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ اس لیے 2018ء کی گیم انھیں کھیلنے دی جائے۔ وہ ابھی بلاول کو باری دینے کے لیے تیار نہیں۔ اسی لیے بلاول اور اس کی بہنوں کو سیاسی طور پر ایک مرتبہ پھر پیچھے کیا جا رہا ہے۔ آصف زرداری پہلے مرحلہ میں سندھ کو مستحکم کر رہے ہیں۔
اس سے قبل امتیاز شیخ کو بھی شامل کیا گیا۔ وہ سندھ کے ہر اس سیاسی رہنما کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں جو سیٹ نکال سکتا ہے۔ وہ ہر سیٹ پیپلزپارٹی کے پاس چاہتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک گیم ہے۔ وہ سندھ سے باقی تمام سیاسی جماعتوں کے صفایا کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ وہ ہر جیتنے والا گھوڑا اپنے اصطبل میں لانا چاہتے ہیں۔ شایدیہ بات ان کے بچوں کو سمجھ نہیں آ رہی۔
یہ درست ہے کہ صرف سندھ جیت کر آصف زرداری وزیر اعظم نہیں بن سکتے ہیں۔ لیکن آصف زرداری سندھ کے بعد باقی صوبوں میں بھی آئیں گے۔ سندھ ان کی گیم میں پہلی ترجیح ہے۔ آصف زرداری کا موقف ہے کہ اگلے انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جس میں کوئی بھی جماعت واضح سیاسی برتری حاصل نہیں کر سکے گی۔
ایسی صورت میں میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمٰن اسفند یار ولی خان سمیت تمام سیاستدان عمران خان کا رواستہ روکنے کے لیے آصف زرداری کو قبول کر لیں گے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے لیے ایک ایک سیٹ بہت اہم ہے۔ اور اسی اہمیت نے نبیل گبول سمیت تمام کی لاٹری نکال دی ہے۔ مجھے تو خدشہ ہے کہ ذوالفقار مرزا کی بھی آصف زرداری سے صلح ہو جائے گی۔ کیونکہ آصف زرداری ناممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوسری طرف ایسا نہیں ہے کہ باقی جماعتیں خاموش بیٹھی ہیں۔ عمران خان نے بھی جیتنے والے گھوڑوں کے لیے اپنے سیاسی اصطبل کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اسی لیے ڈیر غازی خان سے کھوسہ خاندان کو شامل کیا گیا ہے۔ ورنہ کھوسہ خاندان کوئی عمران خان کے سیاسی نظر یات پر پورا نہیں اترتے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب سے حنا ربانی کھر اور غلام مصطفی کھر کی بھی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں آ رہی ہیں۔ فواد چوہدری کی شمولیت بھی اسی فارمولہ کی کڑی تھی۔ عمران خان بھی اب ہر حلقہ میں جیتنے والے گھوڑے کی تلاش میں ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس سلسلے میں عمران خان کا فوکس پنجاب ہے۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ عمران خان نے سروے کرنے والی ایک معروف کمپنی کو یہ ٹھیکہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب میں انتخابی حکمت عملی کے لیے ایک جامع رپورٹ تیار کرے۔ اس کمپنی کو ہر انتخابی حلقہ کی الگ الگ رپورٹ تیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ کس حلقہ میں تحریک انصاف کے پاس جیتنے والے امیدوار پہلے ہی موجود ہیں اور کہاں مارکیٹ میں ایسے امیدوار موجود ہیں جن کو تحریک انصاف میں شامل کر کے انتخابی حلقہ جیتا جا سکتا ہے۔
تحریک انصاف دوہری حکمت عملی پر کام کر رہی ہے۔ ایک تو جیتنے والے گھوڑوں کی تلاش شروع ہے دوسری طرف وہ پنجاب میںکوئی حلقہ خالی بھی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف نے بہت سے حلقہ اس لیے بھی خالی چھوڑ دئے تھے کہ اس کے پاس ان حلقوں میں امیدوار بھی نہیں تھے۔ اس بار اس کمی کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خبریں یہ ہیں کہ اس سروے کمپنی کی رپورٹس کی روشنی میں پنجاب کے قومی اسمبلی کے ستر حلقوں میں امیدوار فائنل بھی کر لیے گئے ہیں۔ اور باقی حلقوں میں کام جاری ہے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ پانامہ کا فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف غیر رسمی طور پر ٹکٹوں کی تقسیم شروع کر دے گی جس میں امیدواروں کو گرین سگنل دیے جائیں گے کہ انھیں ٹکٹ دیا جائے گا۔ تا کہ وہ اپنے حلقوں میں جا کر کام شروع کر سکیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ جب دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے انتخابی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ جیتنے والے گھوڑوں کے لیے اپنے اصطبل کھول دئے گئے ہیں تو ن لیگ کیوں خاموش ہے۔ وہ کیا کر رہی ہے۔ شاید سندھ ن لیگ کی ترجیح نہیں ہے۔ یہ بات ن لیگ کی قیادت رسمی اور غیر رسمی گفتگو میں مان رہی ہے کہ سندھ میں ان کے پاس کوئی گیم پلان نہیں ہے۔
ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے دباؤ میں پیر پگاڑا کو بھی نہ صرف ناراض کر دیا ہوا ہے بلکہ انھیں اتنا کمزور کر دیا ہوا ہے کہ وہ بھی پیپلزپارٹی کے سامنے کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے ن لیگ کے پاس سندھ میں کوئی گیم نہیں۔ ممتاز بھٹو بھی ناراض ہیں۔ غوث علی شاہ کے واپس آنے اور نہ آنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے ن لیگ کی گیم میں سندھ نہیں ہے۔
کے پی کے میں ن لیگ نے امیر مقام کو گرین سگنل دے دیا ہوا ہے۔ وہ بھی جیتنے والے گھوڑوں کی تلاش میں ہیں۔ انھیں محدود کامیابی ملی بھی ہے۔ لیکن پھر بھی امیر مقام کو پتہ ہے کہ انھیں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ چلنا ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کے پاس کمان ہے اور وہ انتخابی گیم بنا رہے ہیں۔
پنجاب میں ن لیگ کو مسئلہ یہ ہے کہ سارے جیتنے والے گھوڑے اس کے پاس ہی ہیں۔ اصطبل میں اتنے زیادہ گھوڑے ہیں کہ انکو ایڈجسٹ کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس لیے تحریک انصاف اس امید میں بھی ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر ن لیگ کے اصطبل سے کچھ جیتنے والے گھوڑے بیروزگار ہوں گے جنہوں موقع پر قابو کیا جا سکے گا۔ اس لیے ان کے لیے جگہ رکھی جائے گی۔ تا ہم ایک بات طے ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے تمام توجہ جیتنے والے گھوڑوں پر مرکوز کر دی ہے۔ اس لیے کسی بھی نئے امیدوار اور نظریاتی غریب کارکن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ انتخاب بھی جیتنے والے گھوڑوں کے درمیان ہی ہو گا۔