مجھے کچھ لوگوں سے بہت خوف آتا ہے، وہ جب تک میری نظروں کے سامنے رہتے ہیں میرے اندر ایک بیزاری سی سرایت کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کے چہرے سپاٹ ہوتے ہیں ، ان کی خوشی کا پتہ چلتا ہے نہ ان کے غم کا ، ان کی محبت اور نفرت کے جذبات کا بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ کسی تقریب میں کسی صاحب نے عمدہ خطابت کا مظاہرہ کیا، لوگوں نے ان کے خیالات کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر اپنا نقطہ نظر سلیقے سے پیش کرنے پر بھرپور تالیوں کی صورت میں انہیں داد دی ،لیکن اگلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ا یک سامع کے چہرے پر نظر پڑتی ہے تو وہ بالکل سپاٹ ہوتا ہے اس کے چہرے سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ تقریب اسے پسند آئی ہے یا پسند نہیں آئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اگلی نشستوں پر عموماً ایسے ہی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کئی مشاعروں میں ،میں نے دیکھا کہ کسی شاعر نے بہت عمدہ شعر پڑھے اور سامعین نے دل کھول کر سراہا مگر پھر اگلی نشستوں ہی پر بیٹھے ہوئے کسی شخص پر نظر پڑتی ہے تووہ’’اللہ لوک‘‘ اس ساری صورتحال سے بے نیاز نظر آتا ہے۔ اسی طرح کسی برے شاعر کی آمد پر پبلک اسے ہوٹ کررہی ہوتی ہے تو بھی آپ قیاس تک نہیں کرسکتے کہ اس شاعر کے کلام کے حوالے سے موصوف کی رائے کیا ہے؟ آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس طرح کے لوگ کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں رکھتے،ان میں سے کچھ کو تو پہچان ہوتی بھی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ بعض اوقات شاعری اور کسی کے نقطہ نظر اور اس کی پیشکش کے انداز کو پرکھنے والے بھی داد اور بے داد سے کنارہ کشی اختیار کئے بیٹھے رہتے ہیں۔ انہیں اچھا نہیں لگتا کہ وہ اپنے جذبات کسی پر عیاں ہونے دیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوری دنیا میں اپنے علاوہ کسی اور کو داد و تحسین کا مستحق نہیں سمجھتے، آپ یقین کریں مجھے ایسے لوگوں سے خوف آتا ہے۔
اسی’’خاندان‘‘ کی ایک ’’شاخ‘‘ ان افراد پر بھی مشتمل ہے جو آپ سے وقت لے کر آپ سے ملنے آتے ہیںاور آکر چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں اور بغیر کچھ کہے اس وقت تک بیٹھے رہتے ہیں جب تک آپ خود ان سے اجازت طلب نہیں کرتے۔ یہ ان لوگوں سے بہرحال بہت بہتر ہیں جو آتے ہیں اور بغیر کسی وجہ سے مسلسل بولے چلے جاتے ہیں اور اس صورتحال سے پریشان ہو کر آپ ان سے اجازت طلب کرتے ہیں تو وہ ناراضی کا اظہار اور آئندہ کبھی نہ آنے کا اعلان کرکے چلے جاتے ہیں مگر اگلے دن پھر آدھمکتے ہیں۔ یہ دونوں بے ضرور لوگ ہیں، مگر خوف ان سے بھی آتا ہے کہ ان کے آنے کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے اور ان کے جانے کے بعد بھی ان کی موجودگی کا احساس مسلسل دل میں رہتا ہے؎
’’دو ہی گھڑیاں زندگی میں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن‘‘
اک تیرے آنے سے پہلے، اک تیرے جانے کے بعد
پہلے مصرع میں مجھ سے غالباً کچھ گڑ بڑ ہوگئی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلسل بولنے والے ایک صاحب تھوڑی دیر پہلے ہی سخت ناراضی کے عالم میں مجھ سے رخصت ہوئے ہیں اور یوں میرے دل و دماغ پر ان کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔
تاہم ایک قسم تو ایسے افراد پر مشتمل ہے جن سے میں بہت زیادہ لرزاں و ترساں رہتا ہوں۔ یہ میرے کچھ’’دوست ہیں، جو آتے ہیں تو میری مدح میں بہت خوبصورت الفاظ کہتے ہیں اور اس کے بعد کسی صاحب کا نام لے کر بتاتے ہیں کہ ان سے ذرا محتاط رہیں وہ ایک محفل میں آپ کو گالیاں دے رہے تھے۔ بعض دفعہ تو وہ یہ گالیاں بھی لفظ بہ لفظ میرے گوش گزار کردیتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جب وہ صاحب یہ سب کچھ’’ارشاد‘‘ فرمارہے تھے تو آپ نے انہیں کیا کہا؟ جواب میں کہتے ہیں کہ میں اس گندے شخص کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا، سو چپ رہا ….میں کہتا ہوں برادرم جو گالیاں اسے میرے منہ پر دینے کی جرأت نہیں ہوئی تھی وہ آپ نے میرے منہ پر دے دیں جس پر وہ ناخوش ہوتے ہیں مگر فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آئندہ مجھ سے محبت جتانے کے لئے میرے منہ پر مجھے گالیاں نہیں دیتے۔
میرےنزدیک یہ سب طبقات خطرناک ہیں، آپ ان کی شخصیت کے بارے میں اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ ان کے خیالات و نظریات کیا ہیں، وہ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، ان کے دل اتنے تنگ کیوں ہیں، انہیں اچھے اور برے کی پہچان نہیں یا وہ’’خفیہ پولیس‘‘ کے لوگوں کی طرح اپنا آپ ہر کسی پرظاہر ہی نہیں ہونے دینا چاہتے۔ صورتحال جو بھی ہو ایسے مواقع پر مجھے عدم ؔ کا یہ شعر ضرور یاد آتا ہے؎
اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں!
بشکریہ روزنامہ جنگ