تحریر : شہزاد حسین بھٹی
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں دیگر شعبے زوال پذید ہیںوہیں صحت کا شعبہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ محکمہ صحت جس کا کام انسانی جانوں کا حفاظت اور بیماریوں کی روک تھام کے لیئے اقدامات کرنا ہے وہ خود اپنی روائتی کام چوری ،رشوت خوری اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پرعمل پیرا ہو کر جعلی ادویات کی روک تھام کے بجائے انکی ترسیل کی شرح میں ا ضافے کا باعث بن رہا ہے۔
شہروں میں جابجا جعلی کلینک قائم ہیںجہاں ہومیوپیتھی کی آڑ میں ایلوپیتھک کی پریکٹس کی جارہی ہے اور محکمہ صحت نے انہیں موت بانٹنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور یہ نام نہاد عطائی ڈاکٹراسٹیرائیڈز دیکر لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔کچھ میڈیکل سٹورز والے بھی بین ادویات دھڈلے سے فروخت کر رہے ہیں یہ جعلی سیکس میڈیسن ویاگرہ اور وائیمیکس جو زیادہ تر انڈیا سے افغانستان کے راستے اسمگل ہوکرپشاور آتی ہیں اور یہاں سے پورے پاکستان میںسپلائی ہوتی ہیںجبکہ یہی سیکس میڈیسن خیبر پختون خواہ کی کچھ لیبارٹریاں بھی بنا رہی ہیں۔بیس روپے میں ملنے والی ایک گولی میڈیکل سٹورز والے ایک سو پچاس روپے تک نہ صرف عام لوگوں بلکہ کالجوں کے نوجوانوں کو بھی فروخت کررہے ہیں جو وقتی لذت کے حصول سے نہ صرف بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیںبلکہ لاعلمی میںان ادویات کے سائیڈافکٹس کی وجہ سے دل اور گردوں کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق سیکس میڈیسن کے استعمال سے گردے براہ راست متاثر ہوتے ہیںاور دس فیصدلوگوں کے گردے ان جعلی سیکس میڈیسن کی وجہ سے فیل ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان ادویات کو منگوانے والوں اوربیچنے والوں دونوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ اس ملک میں محکمہ صحت کے افسران اور ڈرگزانسپکٹر منتھلی لیتے ہیںلہذا اسے روکے گا کون؟کیا آپ لوگوں نے آج کل کبھی سنا یا خبر پڑھی کے فلاں میڈیکل سٹور یا فارمیسی سیکس میڈیسن ویاگرہ اور وائیمیکس پکڑے جانے کی وجہ سے سیل کی گئی ہو؟بد قسمتی سے نہ تو میڈیسن کی اسمگلنگ کو روکا جا سکا ہے اور نہ ان لیبارٹریوں کی چھان بین یا باز پرس کی جاتی ہے۔ڈرگز انسپکٹر ،لیبر انسپکٹر اور کوالٹی افسران ان فیکٹریوں سے اپنا حصہ لے کر چلتے بنتے ہیں ۔غیر معیاری ادویات کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے کبھی کھانسی کے سیرپ ہزاروں لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اکثر خاندان اپنے بجٹ کا 77 فیصد ادویات پر خرچ کر دیتے ہیں۔ان میں سے پچاس فیصد سے زائد ایسے خاندان شامل ہیں جو غربت کا شکار ہیں اور اس بات سے لا علم ہیں کہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے جعلی ادویات خرید رہے ہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جعلی ادویات پورے پاکستان میں ہر جگہ دستیا ب ہیں دوسرا اہم ایشو (ایکسپائر ی میڈیسن )ہیں ۔ہمارے ہاں مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے اور لوگوں کی اکثریت ان پڑھ ہونے کی وجہ سے زائد المعیاد ادویات بھی بڑے آرام سے فروخت کر دی جاتی ہیں اور نتیجتاً کسی نہ کسی غریب مریض کی جان چلی جاتی ہے اور فروخت کرنے والے کو افسوس تک نہیں ہوتا ۔اسی طرح خسرہ ،پولیو اور ہیپاٹیٹیس سی کی جعلی ویکسین بھی تیارکر کے فروخت کی جا رہی ہیں۔یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ پولیو کی ویکسین مناسب طریقے سے ٹرانسپورٹ نہ ہونے اور جعلی ہونے کی وجہ سے اکثر وہ بچے بھی پولیو کا شکار ہوئے جنھیں پولیو ویکسین پلائی گئی تھی ابھی گذشتہ دنوں لاہور کے قریب ایک جعلی لیبارٹری پکڑی گئی جو ہیپاٹیٹس کے جعلی انجکشن تیار کرتے تھے ۔جعلی ادویات کی تیاری کے بڑے مراکزخیبر پختون خواہ ،کراچی اور لاہور ہیں ۔ایسی جعلی ادویات کی کھیپ چھوٹے شہروں پسماندہ قصبوں اور دیہاتوں میں بھیجی جا تی ہیں۔اور ان دواؤں پر اچھا مارجن ملنے کی وجہ سے عطائی ڈاکٹر اور حکیم لاکھوں روپے کما رہے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت اور یورپی یونین میڈیسن رپورٹ کے مطابق دس فیصد سے زائد ادویات پاکستان میں فروخت کی جاتی ہیں ۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ زیادہ تر جعلی ادویات پاکستان ،انڈیا اور چین میں تیار کی جاتی ہیں اور جعلی ادویات کا کاروبار یورپی دنیا میں بھی پھیل چکا ہے 2014ء میں ان جعلی ادویات کی وجہ سے پاکستان میں ایک سو پچاس سے زائد لوگ موت کے منہ میں جا چکے ہیں جبکہ اسے سے پہلے چالیس ہزار سے زائد جعلی ادویات دل کے مریضوں کو دی گئیں تھیں ۔رپورٹ کے مطابق ملیریا کی ایک تہائی ادویات جعلی پائی گئیں جنکے استعمال کی مدت ختم ہونے کے بعد تازہ لیبل لگاکر ری کنڈیشن انداز میں فروخت کر دیا گیا تھا ۔بچوں کی ویکسین کی مدت بڑھانے کے لیئے اس میں مرکری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہسپتالوں میں استعمال شدہ سرنجیںاور دیگر ویسٹ میٹریل ری سائیکل کر کے دوبارہ یہی اشیاء اور بچوں کے دودھ کے فیڈرز کے نیپل بناکر فروخت کر دیئے جاتے ہیں ۔ڈرگزلیبارٹریاں کراچی ،لاہور اور اسلام آباد میں ہونے کے باوجود میڈیسن کو چیک نہیں کیا جا تا ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خود حکومتی ادارے بھی ان کی رپورٹوں پر اعتماد نہیں کرتے ۔دنیا میں پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں ہم سب ڈاکٹر بنے ہوتے ہیں اور اگر کسی کو پیٹ میں درد ہے تو بجائے اسکے کے اسے ڈاکٹر کے پاس بھیجا جائے ہم خود ہی اسے سر درد کی گولی دے کر کہتے ہیں کہ اس کے کھانے سے تمھارے پیٹ کا درد دور ہو جائے گا یا پھر رہی سہی کسر میڈیکل سٹورکا وہ ان پڑھ لڑکا نکال دے گا جو اپنی ذات میں خود ایک ڈاکٹر ہوتا ہے۔
ڈرگز انسپکٹر اور ہیلتھ آفیسر اپنے ضلعے میں حفظان صحت کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں مگر یہی لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔جعلی ادویات اور جعلی ڈاکٹروں کے سدباب کے لیئے حکومتی ادارے تو موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی بھی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔وزارت صحت کو نہ تو دواؤں کی کوالٹی کی فکر ہے اور نہ ہی انکے پاس کوئی ریکارڈ ہوتا ہے کہ زائد المعیاد ادویات کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جعلی ادویات کے گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے بلکہ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو موثر بنایا جائے ۔متعلقہ حکام ،ذرائع ابلاغ اور سماجی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں ۔انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لاتے ہوئے شہروں میں قائم جعلی لائسنس یافتہ میڈیکل سٹوروں کے خلاف بھی کاروائی کرکے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں اورڈرگ انسپکٹر ز میڈیکل سٹوروں کے خلاف کاروائی کے دوران کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں تاکہ نوجوانوں کی جانوں سے کھیلنے اور سیکس میڈیسن بیچنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جا سکے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی