تحریر: محمد عتیق الرحمن
اکثر پرانے زخم رستے رہتے ہیں اور ان پر انگور آ جاتا ہے لیکن زخم کچے ہی رہتے ہیں ایسے میں جب اس انگورکو کریدا جائے تو سکون ملتا ہے ایسا ہی کچھ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ بھی معاملہ ہے وہ بھی 1948ء اور 1965ء میں لگنے والے زخم جو بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہے کھرچتا رہتا ہے اور سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتارہتاہے یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا جب وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہو ایسا ہی 18ستمبرکو پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں واقع ایئرفورس کے بیس کیمپ پرحملہ کر کے 29 جوانوں کو شہید کر کے اور 23 لوگوں کو زخمی کر کے اس نے اپنے ایک پرانے زخم کے انگور کو کرید کر سکون لینے کی کوشش کی ہے ۔18 ستمبر 1965ء پاکستان ائرفورس نے انبالہ انڈین ائر بیس پر حملہ کر کے دشمن کے ایک سو چھ فائٹر جہاز اور چار سو اکہتر ٹینک تباہ کر دیئے تھے۔ کسی کو یاد ہو نہ ہو ہندوستان کو تو اپنے زخم یاد تھے ۔چونکہ اب اس کی اتنی اوقات تو نہیں کہ فوج بھیج سکے البتہ اپنے جہنمی کتوں کو ضرور بھیج رہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق دہشت گردوں نے علی الصبح پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں واقع ایئرفورس کے بیس کیمپ پر حملہ کیا، بڈھ بیر میں ایئرفورس کے کیمپ میں صبح 5 بجے کے قریب 13 سے 14 دہشت گرد داخل ہوئے، دہشت گرد 2 گروپوں میں گاڑیوں میں آئے اور گیٹ کے قریب گاڑی سے اتر کر راکٹ لانچر اور فائرنگ کرتے ہوئے ایک گروپ ٹیکنیکل ایریا اور دوسرا گروپ وہیکل ایریا میں داخل ہوا تاہم گیٹ پر موجود ایئرفورس کے گارڈز نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں روک لیا۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ حملے کے 10 منٹ بعد کوئیک ری ایکشن فورس بھی موقع پر پہنچ گئی اور دہشت گردوں کو پہلے 50 میٹر کے اندر روک دیا گیا اس کے بعد جو بھی لڑائی ہوئی اسی ایریا میں ہوئی لیکن اسی دوران دہشت گردوں نے مسجد کا رخ کیا جہاں موجود نمازیوں پر حملہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ 8 دہشت گرد مسجد کی جانب گئے جنہیں کوئیک ری ایکشن فورس نے گھیر کر وہیں پر ختم کردیا جب کہ دوسرے گروپ کو بھی وہیکل ایریا سے آگے بڑھنے نہیں دیا گیا اور ان کا بھی وہیں پر خاتمہ کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران میں کوئی خود کش حملہ نہیں ہوا اورتمام دہشت گردوں کو گھیر کر مارا گیا ہے۔ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ حملے میں پاک فوج کے کیپٹن اسفندیارسمیت 29 افراد شہید ہوئے جب کہ واقعے میں 23 افراد زخمی ہوئے اور فورسز کی کارروائی میں تمام 13 دہشت گرد مارے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی اور دہشت گرد بھی وہیں سے آئے، حملے کے وقت دہشت گردوں کو افغانستان سے ہی کنٹرول کیا جاتا رہا جب کہ حملہ تحریک طالبان پاکستان کے گروپ نے ہی کیا تاہم مزید تفصیلات انٹیلی جنس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی پتا چل سکیں گی۔ میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کا نام ثبوتوں کی بنا پر لیا گیا ہے اور پڑوسی ملک کی طرح الزام نہیں لگایا جب کہ افغانستان کے کراسنگ پوائنٹس سیکیورٹی رسک ہیں جہاں سے 35 ہزار افراد افغان بارڈر سے روزانہ آتے ہیں اور دہشت گرد پاکستان میں آکر گھل مل جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اور ریاست دہشت گرد حملے میں ملوث نہیں ہوسکتی کیوں کہ ان سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں لیکن افغان مہاجرین ہمارے لیے سیکیورٹی رسک ہیں۔
بھارت جو ہماراازلی دشمن ہے اس وقت بوکھلاہٹ کاشکار ہوچکاہے کیونکہ اس کے سارے پتے ناکام ہوچکے ہیں ۔افغانستان سے امریکہ ونیٹو افواج کاانخلاء اس کے لئے پریشانی کاسبب بن چکاہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ امریکیوں کی موجودگی میں جوکچھ اس نے افغانستان میں بیٹھ کر کھیل کھیلاتھا اس کا خمیازہ اسے بہرحال بھگتناپڑے گا۔ادھر کشمیریوں نے اس کی ناک میں دم کررکھاہے ۔8لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود کشمیریوں کا پاکستانی جھنڈالہرانااور پاکستان سے رشتہ کیا۔لاالہ الااللہ،جیسے نعرے بھارت کو موت کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔
خالصتان تحریک کا دوبارہ سے سراٹھانا بھارت کی ایک اور ناکامی ہے ۔پاکستا ن میں ضرب عضب کے نام پرپاک فوج دہشت گردوں،سہولت کاروں اور بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے ایجنٹس کو جہنم واصل کرنے کا سلسلہ شروع کئے ہوئے ہے ۔جس کی وجہ سے بھارتی سورمابوکھلاہٹ کاشکارہوکر اس طرح کی کاروائیاں کررہے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں ان میں بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘،سی آئی اے اور موساد جیسی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں جنہیں افغانستان میں اپنی شکست ہضم نہیں ہورہی اور وہ ہرحال میں اس کا بدلہ پاکستان سے لیناچاہتی ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان جتنامضبوط ہوگا،کشمیر کی آزادی بھی اتنی ہی مضبوط ہوگی اور اتناہی بھارت کمزور ہوگا۔یہ معاملہ بالکل ریاضی کے فارمولے تناسب معکوس کا سا ہے۔
ہماراخیال ہے کہ ہندوانتہاپسندتنظیم بی جے پی اور نریندرمودی کو اقتدار میں لاناایک طے شدہ پلاننگ کے تحت ہے تاکہ بھارت پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ پالیسی جاری وساری رکھ سکے اور پاکستان پر دباؤ ڈالاجاسکے لیکن یہ سب فضو ل ہے۔بی جے پی اور مودی کی جگہ اگر کوئی ان سے بھی بڑا انتہاپسند آجائے تو پاکستان کا ان شاء اللہ بال بھی بیکانہیں کرسکتا۔پچھلے چند ماہ سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل بھارتی جارحیت سے شاید ہی کوئی پاکستانی سرحدی گاؤں محفوظ ہو۔یہ سب آپریشن ضرب عضب سے توجہ ہٹانے اور پاکستانی عوام کا مورال گرانے کے حربے ہیں۔
اس وقت دنیابھر میں پاک فوج اور اس کے سپہ سالاروں کوایک فاتح کی ں طر سے دیکھاجارہاہے ۔غیرملکی دشمن عناصر اور ایجنسیا ں اپنا پورازور لگارہی ہیں کہ اس کوناکام کردیاجائے ایسے میں اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائی ہونااچنبھے کی بات نہیں۔ہم حالت جنگ میں ہیں جنگوں میں نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ۔اس وقت پاکستانی فوج اور عوام ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر بھارت کی پراکسی وار کا مقابلہ کررہی ہے ۔پاکستانی سیاسی قیادت کوبھی چاہیئے کہ وہ فرنٹ لائن پر آکر پاک فوج کا ساتھ دیں اور کشمیر کے مؤقف پر قائم رہیں ۔یادرکھیں جس دن کشمیر کو آزادی ملے گی اسی دن ان شاء اللہ دہشت گردی کے یہ سلسلے ٹوٹ جائیں گے۔
تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157