تحریر: علی عمران شاہین
امریکہ نے گزشتہ ہفتے ملا اختر منصور پر حملے ،پاکستان پر مزید حملوں کی دھمکی کے ساتھ چند ایام میں پے در پے اپنے اقدامات اور اعلانات سے کھل کر ثابت کر دیا ہے کہ اس کا نشانہ دنیا کے سبھی مسلم ممالک اور پاکستان ہے۔ عالم اسلام کے روحانی مرکز اور قائد ریاست سعودی عرب کے خلاف امریکی سینیٹ نے متفقہ طور پر قرارداد پاس کی جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ نائن الیون کے واقعہ میں سعودی عرب کا کسی نہ کسی طور پر ہاتھ ہے، لہٰذا اس واقعہ کے متاثرین سعودی عرب سے اپنے مارے جانے والے پیاروں کا ہرجانہ وصول کر سکتے ہیں۔ اب یہ بل کانگرس میں پیش ہو گا جس کے بعد صدر اوباما کے دستخط کا مرحلہ آئے گا۔ اس سے قبل جب نائن الیون کے واقعہ کے حوالے سے تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ کو سامنے لائے بغیر کہا تھا کہ اس واقعہ میں سعودی عرب کی حکومت یا عہدیدار تو براہ راست شریک نہیں پائے گئے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی نہ کوئی نچلے درجے کا سعودی عہدیدار اپنے طور پر اس واقعہ میں کسی حد تک شریک ہو۔
اس حوالے سے نائن الیون کمیشن کی تیار کردہ طویل رپورٹ میں شامل ان 28 صفحات کو اب تک خفیہ رکھا گیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان میں نائن الیون کے واقعہ میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کا تذکرہ ہے۔ جب رپورٹ کے اس حصہ کے افشا کرنے کی بات چلی تھی تو اس وقت سعودی عرب نے امریکہ کو کہا تھا کہ اگر نائن الیون کے واقعہ میں ریاض کو ملوث ثابت کرنے کی کوشش کی گئی توریاض امریکہ میں موجود اپنے ایک ہزار ارب ڈالر کے قریب کے اثاثے فروخت کر دے گا۔ (یہ بات تو روز اول سے سب کے سامنے ہے کہ سعودی عرب نے نائن الیون کے واقعہ کی مذمت اور مکمل لاتعلقی کا اظہار بارہا کیا ہے) اس پر امریکہ میں تھرتھلی مچ گئی تھی اور پھر امریکی صدر باراک اوباما نے فوری طور پر سعودی عرب اور عرب ملکوں کا دورہ کر کے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس وقت بھی وائٹ ہائوس نے کہا تھا کہ ایسے کسی بل پر امریکی صدر کوئی دستخط نہیں کریں گے اور وہ ایسے بل کو ہی ویٹو کر دیں گے۔
اب ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال پیچیدگی کی طرف جا رہی ہے۔ کل تک وہی امریکہ کہ جو سعودی عرب کو اپنا سب سے بہترین دوست اور اتحادی کہتے نہیں تھکتا تھا۔ اب مسلسل تھکے تھکے بیانات دینے کے ساتھ ساتھ منافقت کو کھل کر سامنے لا رہا ہے۔ امریکہ نے شام کے قضیہ میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی اب کھل کر سامنے آ رہا ہے ،امریکہ یہی چاہتا تھا کہ شام کا ملک تباہ و برباد ہو جائے اور ساری آبادی ملک چھوڑ دے۔ گزشتہ دنوں امریکہ نے اعتراف کیا کہ ان کے ایک اعلیٰ سطحی جرنیل نے شام اور ترکی کے کرد علاقے کا دورہ کیا تھا، اس دورہ کا مقصد صاف اور واضح ہے کہ خطے میں جہاں شام کے ٹکڑے اور حصے بخرے کئے جائیں، وہیں شام، ترکی اور عراق سے زمین لے کر ایک نئی ریاست آزاد کردستان کی بنیاد رکھی جائے۔ امریکہ نے فساد اور جنگ کو طویل کرنے کے لئے داعش کی بھی بنیاد رکھی جس سے جنگ مزید پیچیدہ ہوئی اور عالم اسلام کے خلاف امریکی سازشوں کا جال وسیع اور سخت ہوتا چلا گیا۔
امریکی سازشوں اور بدمعاشیوں کے نتیجے میں ہی اس وقت مسلمانوں کا ایک بڑا اور اہم ملک لیبیا تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ عراق کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ یمن بھی امریکی سازش کا شکار ہے۔ افغانستان جو نائن الیون کے بعد سب سے پہلے امریکی فرعونیت کا نشانہ بنا تھا وہاں کی حالت زار بھی دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح کرئہ ارض کے ایک انتہائی نحیف و نزار ملک کو آج بھی امریکہ رگید رہا ہے اور سارا عالم اسلام خاموش ہے۔امریکہ کی کوشش ہے کہ اب بدامنی اور مسلمانوں کے ہر ملک کو برباد کرنے کی سازش پہلے ترکی تو پھر خطے کے دیگر ممالک میں داخل ہو۔ آزاد کردستان بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔
اس سازش کے تحت اب پاکستان کو بھی دن رات دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اور تو اور افغان طالبان رہنما ملا محمد اختر کا نام لے کر امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کے اندر ڈرون حملہ کر دیا جس میں عام پاکستانی شہید ہوئے۔ افسوس کہ سوائے وزیر اعظم کے کسی اور نے اس کی مذمت تک نہیں کی حالانکہ یہ ملک پر حملہ تھا۔ امریکہ بھارت کو روز نئی سے نئی شہہ دے رہا ہے۔ حیران کن طور پر اب امریکہ بھارت کو باقاعدہ طور پر نیٹو اتحادی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بھارتی دبائو ہی تھا کہ جس کے تحت امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ طیارے تک دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ایف سولہ طیاروں کا قضیہ ہر روز گھمبیر سے گھمبیر ہو رہا ہے اور اب تو امریکہ نے باقاعدہ طور پرپاکستان سے کہہ دیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ویسی کارروائی کرے جیسی وہ چاہتا ہے۔ امریکہ نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان شکیل آفریدی کو بھی اس کے حوالے کرے تو تبھی اس کے لئے فوجی امداد کی بحالی پر غور ہو سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں بھارت نے سپرسانک میزائل کے تجربات کئے جس پر پاکستان نے اپنی تشویش ظاہر کی لیکن امریکہ سمیت ساری دنیا نے اس تشویش کو درخوراعتنا تک سمجھنا گوارا نہیں کیا۔ بھارت امریکی عالمی ایما اور امریکی حمایت سے اس حد تک کھل کر کھیل رہا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کا جو نیا نقشہ پیش کیا ہے جس میں مقبوضہ ہی نہیں بلکہ آزاد کشمیر کو بھی اپنے ملک کا حصہ بنا کر پیش کیا ہے۔ اس سے قبل بھارت کے اندر اس بات کا قانون بنایا گیا ہے کہ جو کوئی آزاد کشمیر کو بھارت سے الگ یا متنازع دکھائے گا اسے سزا دی جائے گی۔ پاکستان نے بھارت کی اس بدمعاشی پر اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی کہ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح مخالفت اور نفی ہے لیکن اقوام متحدہ نے پاکستان کی بات سننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس نے جماعة الدعوة کے خلاف 2008ء میں ممبئی حملوں کی فائرنگ کے ختم ہونے سے پہلے ہی صرف بھارتی مطالبے پر فوری اور ہنگامی اجلاس بلا کرسو فیصد اس کی مرضی کا فیصلہ سنا دیا تھا۔ایسے سنگین حالات میں سبھی مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نازک حالات کا بغور جائزہ لیں۔ اپنے دفاع کے لئے فوری طور پر مشترکہ و متحدہ محاذ تشکیل دیں۔
سعودی عرب نے اس حوالے سے انتہائی شاندار پیش رفت کر کے 34 ملکی عسکری اتحاد جو بنیاد رکھ کر اسے 39ممالک تک وسیع کیا ہے، اسے مزید بہتراور موثر بنایا جائے۔ عالم اسلام کا ہر ملک ”ہنوز دلی دور است” کی روایت کو ترک کرے۔ بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرنے یا شترمرغ کی طرح سر ریت میں دبانے سے خطرہ کبھی نہیں ٹلے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم دنیا کے کتنے ملک ایک ایک کر کے امریکی ریشہ دوانیوں بلکہ دہشت گردی کے شکار ہو کر تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔کیا ایسے حالات میں دیگر مسلم ممالک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے ابھی تو میری باری نہیں آئی، اور دوسروں کی بربادی کا یونہی تماشا دیکھتے رہیں گے۔
امریکی سرپرستی میں جس طرح ساری دنیا نے مل کر عرب دنیا کے دل میں اسرائیل جیسا سانپ چھوڑ کر اسے مسلسل یوں قوت و حفاظت کے ساتھ پال پوس رکھا ہے، کیا ہم اس سے بھی سبق نہیں سیکھیں گے۔ امریکہ ہو یا ان کے اتحادی، وہ مسلمانوں کا کوئی مسئلہ کبھی حل نہیں کریں گے بلکہ ان کے ملکوں کو تباہ و برباد کریں گے اور ٹکڑوں میں بھی تقسیم کریں گے۔ ہمیں خود خطرات کا ادراک کر کے آنکھیں کھولنا ہوں گی۔ امریکہ کو زبردستی یک طرفہ طور پر دوست سمجھنا چھوڑنا ہو گا۔ ساری دنیا کا کفر ایک جماعت ہے، یہ حکم ہمیں ہمارے رہبر و رہنما حضرت محمد رسولۖ دے کر گئے تھے۔ اگر ہم اسے سمجھ جائیں تو ہمارے روشن مستقبل کی راہیں خودبخود آسان ہوں گی، وگرنہ جو حشر جاری ہے اس کا سلسلہ آگے ہی بڑھتا جائے گا۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375