تحریر: پروفیسر محمد صغیر
اولیائے کرام اور صوفیائے عظام دین اسلام کی تعلیمات کے حقیقی مبلغ اور ذات قدرت کے منتخب نمائندے ہیں جن کی تمام تر توانائیاں خدا ورسول ۖکی رضا جوئی کے لیے وقف ہیں۔ یہ مقدس ہستیاں ہر دور میں تیر گئی دوراں میں اجالوں کے چراغ روشن فرماتی رہی ہیں۔ ہندالولی ہوںیا لال شہباز قلندر، علی ہجویری گنج بخش ہوں یا الٰہی شاہ گنج البحر، جملے شاہ ہوں یا بلھے شاہ، بری امام ہوں یا شاہ نظام، ہر نمائندہء الہی عصری تقاضوں کے مطابق قلوبِ انسانی کی آبیاری کرتا آیا ہے۔ ان کے نورانی چہرے اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔ان کی زندگیاں جیتا جاگتا قرآن ہیںاور ان کی سیرتیں سرکار دوعالم ۖکے اتباع میںڈ ھلی ہیں۔
ہرکہ خواہی ہمنشینی باخدا او نشینددر حضور اولیاء
ان نفوس قدسیہ کی خانقاہیں اور درگاہیں طاقت وقوت کا سرچشمہ ہیں۔ تاریخ میںان آستانوں کا اہم کردار رہا ہے ۔انہوں نے معاشرے کو سنوارا،دلوں کو نکھارا ، سلطنتوں کو بنایا اور زمانے کا رخ پلٹاہے۔دلوںپر حکومت کی ہے ۔اللہ رب العزت نے ان کے نقوش قدم کو صراط مستقیم قرار دیا ہے ۔ان کے آثار کو وسیلہء ظفر بناکر ان کے پیغام کو ذریعہء نجات بنایاہے۔یہ اشرف المخلوقات انسان ہیں ۔ ہر دور پرفتن میں اللہ کی روشن نشانیاں ہیں ۔صدیاں بیت جانے کے بعد بھی ان کی یاد لوگوں کے دلوں میں راسخ ہے ۔ان کے قلوب، جمال الٰہی اور اسرار کائنات سے لبریز ہوتے ہیں اور ان کے طائر فکر کی پرواز تابہ عرش رہتی ہے ۔ان پر کائنات کے سربستہ رازمنکشف ہوتے رہتے ہیں اوران ہی کی وساطت سے یہ رموز،بشریت کو عطا ہوتے ہیں۔
یہ اولیاء اللہ جہاں بھی گئے اسلام کی روشنی لے کر گئے ۔اسوئہء محمدی کی خوشبو پھیلائی ۔جہاں گئے ماحول کو جگمگا دیا ،فضا کو مہکا دیا۔اپنے عمل صالح اور دل میں اتر جانے والی تعلیمات کی بنا پر دین اسلام کودنیا کے طول وعرض میں پھیلا دیا ۔صدیوں کی محنت شاقہ اور اور عمل صالح کی ذاتی مثالوں سے ان مردان حق آگاہ نے وہ تعلیمات عام کیں جنہوں نے لوگوں پر تجلیات کے ہزارہا عالم منکشف کر دیے اور انہیں نگاہ آشنا سے روشناس کرایا ۔انہی کی خدمات کے باعث آج اسلام ایک عظیم عالمگیر مذہب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہی کے تربیت یافتہ خلفائے طریقت شب وروز گلشن دین کی آبیاری میں منہمک نظر آتے ہیں۔
ان اہل اللہ اور مشائخ نے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ برصغیر میںبھی فروغ اسلام کے لیے انتھک جدوجہد کی اور اپنے کرداروعمل سے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کر کے صحت مند انقلاب برپا کیا ۔ان کی روح پرور شخصیات نے خواص وعوام کے دلوں کو تسخیرکیا اور ان میںزندگی اور معرفت ِحیات وکائنات کی نئی امنگیں پیدا کیں ۔ان کے گلہائے فکر ونظر کی مہک نے ہر انسان کے دل ودماغ کو معطر کیااور یہ مہک آج بھی اپنی تمام تر شگفتگی وتازگی کے ساتھ فضائے بسیط میں مہمیز ہے ۔یہ ہستیاں پوری انسانیت کے لیے رہنما ہیں جنہوں نے ہر دور میں علم وعرفان کی قندیلیں روشن کر کے مخلوق خدا کو صحیح اور سچے راستے پر گامزن کرنے کی مسلسل جدوجہد کی ۔عوام الناس میں اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انوار وتجلیات سے ان کے قلوب واذہان کو منور کر دیا ۔
یہ سفیران ایزدی ،درس مساوات دیتے رہے ۔اخوت ویگانگت کی تعلیم دیتے رہے ۔ان کی تعلیمات متاثر کن اور دلنشیں تھیں ۔یہ بندوں کو سرائے فانی کی حقیقت سے آگاہ کرتے تھے۔ اس گلشن عارضی کی مصنوعی رنگت اور طلسم رنگ وبو کا پردہ چاک کرتے اپنی دور رس نگاہوں سے نئے افق دریافت کیے اور عوام الناس کو آگاہی بخشی ۔اولیاء اللہ نے درویشانہ زندگی بسر کی اور دوسروں کو بھی سادگی کی تلقین کی۔تمام تر عظمتوں کے حامل ہونے کے باوجود انکساری کا پیکر رہے ۔بلندیوں پہ بیٹھ کر عاجزی اپنائی۔
ان خدا والوں نے لوگوں کے سامنے علم وعمل کے ذاتی نمونے پیش کیے۔یہ ظاہری وباطنی رموز کے مرد میدان تھے ۔علم،عقل،وفا،عشق وزہد کے پیکر تھے ۔استغنا وتوکل ایسا کہ شاہی آسائشیں اور دنیاوی نازونعم چھوڑ کر ریگستانوں اور ویرانوں میں چراغ روشن کر دیے لیکن پائے ثبات ایسا کہ جابر وقاہر سلاطین بھی انہیں ہراساں نہ کر سکے ۔تزکیہ ء نفس اور مجاہدہء باطن کے ان غازیوں نے اپنے اندر کی دنیا پر فتح پا کر باہر کی دنیا بھی مسخر کر لی ۔شاہان عالم ان سے خوف کھاتے لیکن یہ صرف خدا تعالیٰ سے خوف کھاتے تھے ا ور یہی ان کی عظمت،بزرگی اور بلندی کا راز تھا ۔ہندوستان اور دیگر ممالک میں اسلام کی ترویج واشاعت اولیاء وصوفیاء کی مرہون منت ہے جنہوں نے اس بلند مقصد کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور علم وعمل کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں کہ شاہوں کی تعمیر کردہ سربفلک اور سنگین عمارتیں آج ناپید ہوچکی ہیں مگر ان اولیاء اللہ اور صوفیاء کی یادوں کے چراغ آج بھی روشن ہیں اور زندہء جاوید حیثیت اختیار کر چکے ہیں ۔مردم خیز ضلع منڈی بہاء الدین متبحر علمائ،اولیاء ،صوفیاء اور مشائخ اسلام کی سرزمین ہے ۔اہلیان ِمنڈی بہاء الدین ہمیشہ سے ان نفوس قدسیہ کے احسان مند اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے ہیں۔
پروفیسر محمد صغیراور کتاب اولیاء منڈی بہاء الدین محمد صغیر صاحب کے آباء واجداد ، مَدِیْنَةُالْاَولِیَاء ،ملتان شریف کے رہنے والے تھے ۔اولیائے کرام اور صوفیائے عظام سے محبت وعقیدت انہیں ورثے میں ملی ۔ آپ کے والد حاجی سراج دین مرحوم ،منشی محلہ ،ضلع منڈی بہاء الدین میں سکونت پذیر ہوئے ۔آپ حضرت سیدشاہ شرف الدین عابدی المعروف بوعلی شاہ قلندر پانی پتی کے سلسلہ ء فقرسے وابستہ تھے اور ان کی درگاہ سے فیضان ِطریقت حاصل کیا۔آپ بیری والے بابا معروف ہیں۔ محمد صغیر کی صغرسنی حسن ابدال اورواہ میں بسر ہوئی ۔کوہ ِابدال پہ حضرت سید حسن ابدال کاظمی ولی قندہاری کی چلہ گاہ گھر کے سامنے تھی ۔صبح وشام زیارت کا شرف نصیب ہوتا ۔ قلب ونظر کو کیف وسرور ملتا۔اسی جذب ومستی کے ساتھ علمی مدارج طے ہوتے گئے اور ساتھ ہی ساتھ روحانی منازل کا بھی آغاز ہوا۔جستجوئے علم اور آرزوئے روحانیت نے سرزمین سندھ کا انتخاب کیا ۔1963ء میں صوفیاء کی دھرتی پہ قدم رکھے۔
حیدر آباد کے تعلیمی اداروں سے بی اے ،بی ایڈ،بی کام،ایم کام اور ایم ایڈ کی اسناد حاصل کیں ۔فیصل آباد زرعی یونیورسٹی سے اکتساب علم کیا ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایک درجن سے زائد کورسز کیے ۔کراچی،لاہوراور شیخو پورہ سے پوسٹ گریجوایٹ تعلیمی کورسز میں شرکت کی ۔ قیام سندھ کے دوران لال شاہباز قلندر ،سیدعبداللطیف شاہ کاظمی بھٹائی اورمخدوم نوح ہالہ کی درگاہیں روحانی تسکین کا ذریعہ تھیں ۔بارہا حاضری کا شرف نصیب ہوا ۔درگاہ قلندر کے مجاوراور دنیا کے طویل القامت شخص،عالم چنا مرحوم سے راہ ورسم کا آغاز ہوا جو بعد ازاں گہرے مراسم میں بدل گیا۔ اکتساب علم کے بعد ملازمت کا دور شروع ہوا ۔ملک کی نامور کمپنیوں میں مدرس ومنتظم کے فرائض سرانجام دیے ۔اوراد ووظائف واشغال کے باعث عقد کا موقع نہ مل سکا ۔ تمام عمر سیکھنے سکھانے میں گزر گئی ۔ کثیر الجہت علم حاصل کیا ۔سول ڈیفنس سے وابستہ رہے۔
وسطی پنجاب میںواقع منڈی بہاء الدین کو 1992ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا ۔یہ علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔سکندر ِاعظم اور راجہ پورس کی لڑائی ہو یا 1849ء میں سکھوں انگریزوں کے مابین چیلیانوالہ کے مقام پہ لڑی جانے والی خونریزجنگ ،یہ زرخیز ومردم خیز علاقہ ہردور کی تاریخ کے صفحات میںاہمیت رکھتا ہے ۔جہاںمادی برتری نے اپنا آپ منوایا ہے وہیں روحانیات ،الہٰیات اورمابعد الطبیعات میں بھی اہلیان منڈی بہاء الدین اپنے فہم وخرد میں یگانہ نظر آتے ہیں ۔اللہ والوں سے عقیدت اور اولیاء وصوفیا ء کا اتباع اس علاقہ کے باسیوں کی گھٹی میں ہے ۔دو دریائوں (چناب وجہلم )کے پروں پہ سوار ضلع منڈی بہاء الدین ،شریعت وطریقت کے دریائوں سے بھی ہر دور میں فیضیاب ہوتا آیا ہے۔ جگہ جگہ ایمان افروزی کرتے مزارات اور اہل علاقہ میں ان کاحد درجہ احترام اس امر کی تصدیق کرتا ہے۔
ضلع منڈی بہاء الدین کی حدود میں جلوہ فرماان اولیاء اللہ ،صوفیاء ،پیران طریقت ،آستانوں،درگاہوں،درباروںاور روحانی مراکز کے متعلق علمی کاوش کے فقدان کے پیش نظر 2006ء میںمحمدصغیر صاحب نے ایک کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔تاریخ ِضلع منڈی بہاء الدین اس موضوع پر تشنہ ہے ۔اس عنوان پہ آج تک کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ یہ پہلی کاوش ہے ۔ 2006ء سے لے کر تادم تحریر مستعار شدہ سائیکل پر اور اکثر پیدل، ضلع بھر کے کونے کونے میں قائم درباروں، درگاہوں اور آستانوںپہ حاضری دی اور اولیائے کرام کی سیرت وتعلیمات سے متعلق مواد حاصل کرنا شروع کیا ۔ گدی نشینوں ،متولیوںاور مزارنشینوں کا عدم تعاون،لاعلمی ،نارواسلوک اکثر حوصلہ شکنی کا باعث بنا۔فکر اقبال، بیشتر مقامات پہ مجسم نظر آئی۔
قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن
ورثے میں ملی ہے انہیں مسند ِارشاد زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
ایک جامع کوائف نامہ تیار کرکے ضلع بھر کے مقدس مقامات کے مقتدر ین تک پہنچا دیا گیا ۔کہیں وعدے ہوئے ،کہیں ٹال دیا گیا ۔حوصلہ شکنی ہوئی تو کہیں عذرو مجبوری ظاہر کی گئی ۔وعدے وفا ہوئے نہ کوائف نامے لوٹائے گئے ۔اس کتاب کے مندرجات انتہائی عرق ریزی سے تیار کیے گئے ہیں ۔مزارات پہ نقش تحریروں،متولیوں اور جاروب کشوں کی حکایات اور قرب وجوار کے علاقوں میں پھیلی داستانوں کی مدد سے کچھ نورانی تذکرے مرتب ہو سکے ۔
جن کے متعلق کچھ دستیاب نہ ہوا ان کے اسمائے گرامی اور حاضری کی تاریخ درج کردینا فرض سمجھا۔ہر مزار پہ حاضری اور صاحب ِمزار کے متعلقین سے ملاقات کی ایک جامع رپورٹ تیار کی ۔بہر کیف یہ مسودہ ترتیب دے کر نذرِ قارئین کرنے میں کس حد تک کامیابی ہوئی یہ فیصلہ اس کتاب کی بنیاد پہ آنے والے نئے ایڈیشنز کو کرنا ہے۔
حیات ِصغیر
پیدائش 3اگست 1945ء ٍ
ولدیت حاجی سراج دین مرحوم المعروف بیری والے بابا
آپ حضرت سید شرف الدین عابدی المعروف بو علی شاہ قلندر پانی پتی کی درگاہ کے فیض یافتہ تھے اور ان کی طریقت سے وابستہ تھے
طریقت حضرت شاہ اشرف جہانگیر سمنانی
تعلیم میٹرک 1968ئ، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول ،حسن ابدال
انٹر میڈیٹ 1965ئ، گورنمنٹ سچل سرمست آرٹس کالج ،حیدر آباد ،سندھ
بی اے 1968ئ، سندھ یونیورسٹی ،جامشورو
بی کام 1970ئ، گورنمنٹ سندھ کالج آف کامرس ،حیدر آباد
بی ایڈ 1972ئ ،فیکلٹی آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ،ایلسا قاضی کیمپس ،سندھ یونیورسٹی،جامشورو
ایم ایڈ 1976ئ، سندھ یونیورسٹی،جامشورو
ایم کام 1979ئ، سندھ یونیورسٹی ،جامشورو
ڈپلومہ مشروم ٹیکنالوجی 1987ئ، فیصل آباد زرعی یونیورسٹی ،فیصل آباد
متعدد کورسز علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد
پوسٹ گریجویٹ کورسز کراچی،لاہور ،شیخو پورہ
کار وکسب اسسٹنٹ ٹوریذیڈنٹ انجینئر گیمن پاکستان لیمیٹڈ
ایڈمن برانچ زیل پاک سیمنٹ ٹیکسلا
ٹریٹ کارپوریشن
گورنمنٹ میمن ہائی سکول
شاہ تاج شوگر مل ،منڈی بہاء الدین
سول ڈیفنس،کراچی
روحانی فیض چلہ گاہ حضرت سید حسن ابدال کاظمی ولی قندھاری،حسن ابدال،ضلع راولپنڈی ،پنجاب
درگاہ پیر سید باقر حسین شاہ عرف قبلہ باقر پیا
درگاہ قلندر لال شاہباز ،سیہون شریف ،دادو،ضلع حیدر آباد،سندھ
درگاہ سید عبداللطیف شاہ کاظمی بھٹائی ،بھِٹ شاہ ،حیدر آباد ،سندھ
درگاہ مخدوم نوح ہالہ، حیدر آباد، سندھ
تحریر: پروفیسر محمد صغیر