لاہور (ویب ڈیسک) وسیم میرا ہائی اسکول میں کلاس فیلو تھا،،اسے دوسروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ہنر آتا تھا، وہ اپنے’’ معاملات‘‘ سے دوسروں کو آلودہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا تھا، میں اس کی حرکتوں سے بہت محظوظ ہوتا یہاں تک کہ گھر میں اس کی کوئی بات یاد آجاتی تو بے ساختہ ہنس پڑتا۔
نامور کالم نگار خاور نعیم ہاشمی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر مجھے اس کی سنگت کی عادت سی پڑ گئی، وسیم کی والدہ کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ دماغی مریضہ ہیں، اس کی دو بہنیں اور دو بھائی بھی تھے، بہنیں بڑی اور بھائی اس سے چھوٹے،، ایک کو نشے کی لت پڑ گئی تھی۔ ایک دن میں وسیم کے گھر گیا ،ہم دونوں کا پروگرام تھا داتا صاحب کے میلے میں جانے کا ، میں وسیم کے گھر کے دروازے پر اس کے اکھڑ مزاج اور چڑ چڑے باپ کے روبرو تھا، اس کے باپ نے پوچھا،، کس سے ملنا ہے۔؟ میں نے کہا۔۔وسیم سے، اس کا کلاس فیلو ہوں، اس کا باپ خاموش ہوگیا، وہ نہ مجھے واپس جانے کو کہہ رہا تھا اور نہ ہی وسیم کو بلوا رہا تھا۔ اسی دوران میں نے مین گیٹ سے دور گھر کے اندرونی دروازے سے دو برقعہ پوش لڑکیوں کو برآمد ہوتے دیکھا، اور سوچا ، ضرور وسیم کی باجیاں ہوں گی، وہ اپنے باپ کے قریب پہنچ کر رک گئیں۔ باپ نے سخت لہجے میں دریافت کیا،، کہاں جا رہی ہو؟ ،، جواب ملا ،، ابا جی میلہ دیکھنے،، اب بزرگ محترم نے زور سے چلاتے ہوئے وسیم کو آواز دی۔،،،،اوئے وسیم ،،،، بیٹا باپ کے پکارتے ہی باہر والے دروازے پر آگیا،،،،، اوئے ایناں نوں اندر لے جا ، تے گھر وچ ای میلہ وکھا دے،،،،، لڑکیاں باپ کے مکالمے سن کر سہم گئیں اور واپس گھر کے اندربھاگ گئیں۔میں سوچنے لگا کہ وسیم کی والدہ کا تو سنا تھا ، اس کا تو باپ بھی پاگل ہے،،،، میں اوروسیم شام ڈھلے جب میلہ دیکھنے بھاٹی چوک پہنچے تو وہ دونوں باجیاں وہاں ٹوپی والے برقعے پہنے ہم سے پہلے ہی گھوم رہی تھیں۔(ش س م)