یہ لکھ چکا، العزیزیہ ریفرنس میں بھی آ چکا، کیسے مشکوک پیسوں کے آنے جانے پر 7 بینکوں نے 9 سو الرٹ جاری کئے، کیسے بات اسٹیٹ بینک تک پہنچی، کیسے ’فنانشل مانیٹرنگ یونٹ‘ نے نیب کو بتایا، کیسے اس منی لانڈرنگ کے تانے بانے ہاؤس آف شریفس سے جا ملے، کیسے 5 مرلے کے کرائے کے گھر میں رہنے مگر 7بینکوں میں سوا 4ارب جمع کروانے، نکلوانے والے ملک مقصود کو دبئی بھگا دیا گیا، کیسے بات حسین نواز تک جا پہنچی، کیسے حسین نواز نے باہر سے 272 مرتبہ رقمیں ایسے بھجوائیں کہ پیسے آئیں انجم اقبال کے اکاؤنٹ میں، وہاں سے جائیں پی ایم کیمپ آفس جاتی امرا پر ڈیوٹیاں دیتے پولیس کانسٹیبل ندیم سرور، محمد اقبال، اورنگزیب اور سلیم خان کے اکاؤنٹس میں، ان اکاؤنٹس سے پیسے جائیں شریف میڈیکل و ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈاکٹر عاصم محمود کے اکاؤنٹ میں، یہاں سے جائیں جاتی امرا کے زرعی فارم انچارج محمد اسلم کے اکاؤنٹ میں، یہاں سے پیسے جائیں وزیراعظم نواز شریف کے ڈرائیور پنوں خان، ڈرائیور شاہد فاروق، درجہ چہارم کے ملازم ظہور الحق، رمضان شوگر مل کے ملازم محمد حنیف و دیگر ملازمین فضل داد عباسی، مسرور انور، احسن لطیف، فضیلہ منور، نجم الدین طور، صنوبر طور، وحیدالحق، عبیداللہ، محمد انیس، رئیس کے اکاؤنٹس میں اور پھر ان اکاؤنٹس سے پیسے نکلوائیں وزیراعظم کیمپ آفس جاتی امرا کے ویٹر لیاقت خان، کرامت علی، یہ تھا نواز خاندان۔یہ بھی لکھ چکا کہ کیسے 128 صفحات، 9 والیومز، 27انویسٹی گیشن رپورٹس والی منی لانڈرنگ جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ موجود کہ آصف زرداری منی لانڈرنگ ٹولے کا سربراہ، انور مجید مرکزی کردار، فریال تالپور، مراد علی شاہ اہم کردار، بلاول بینی فشری، کیسے نیشنل بینک، سندھ بینک، سمٹ بینک ان بااختیاروں کے اشاروں پر ناچتے رہے، کیسے کرپشن کی رقم بے نامی اکاؤنٹس میں جاتی، اومنی گروپ کاروبار، اثاثوں میں منتقل ہوتی رہی، کیسے ہنڈی کے ذریعے پیسہ دبئی، فرانس، کینیڈا منتقل ہوتا رہا، کیسے مشکوک اکاؤنٹس پر بینکوں سے 80 ارب کے قرضے لئے گئے،
کیسے ذاتی قرضوں کی ادائیگی سرکاری رشوت کے پیسوں سے ہوئی، کیسے بلاول سالگرہ کیک، صدقے کے بکروں، لانڈری، کتوں کی خوراکیں جعلی اکاؤنٹس سے، کیسے بلاول، ایان علی کی ہوائی ٹکٹیں ایک اکاؤنٹ سے، یہ سب اور بہت کچھ بتا چکا، آپ سن چکے، لہٰذا آج زرداری اینڈ کمپنی، نواز خاندان کے بعد اگلی کہانی حاضر خدمت۔ جی ہاں! داستانِ شہباز شریف خاندان، اس الف لیلہ کا پتا تب چلا جب چیئرمین نیب کو ’مالی انتظامی یونٹ‘ کی طرف سے بتایا گیا کہ شہباز شریف، حمزہ، سلمان اور خاندان کی خواتین کے اکاؤنٹس میں مشکوک رقمیں آ جا رہیں، نیب کی محکمانہ تحقیقاتی ٹیم نے کام شروع کیا، دائرہ کار وسیع ہوا، باقاعدہ منی لانڈرنگ نیٹ ورک نکلا، شہباز خاندان کے خلاف انکوائری شروع ہوئی، 3 اپریل 2019 کو منی لانڈرنگ نیٹ ورک کے اہم کرداروں منی چینجر قاسم قیوم، شریفوں کے پرانے ملازم فضل داد عباسی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، 4 اپریل 2019 کو شہباز، حمزہ، سلمان و خاندان کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ، کرپشن کی انکوائری تحقیقات میں بدلی، 4 اپریل کو قاسم قیوم، فضل داد عباسی گرفتار ہوئے، تفتیش ہوئی، جو کہانی دونوں نے سنائی وہ کچھ یوں، فضل داد عباسی 55-کے ماڈل ٹاؤن سلمان شہباز کے دفتر سے رقم وصول کرتا، سرکلر روڈ لاہور کی ایک نجی بینک برانچ میں آتا، جہاں قاسم قیوم موجود ہوتا، فرضی لوگوں کے شناختی کارڈ استعمال ہوتے، پیسے درہم، ڈالروں میں تبدیل ہوتے، وہیں بیٹھے بٹھائے ہنڈی، حوالے سے پہلے پیسے باہر، پھر کسی فرضی نام سے پیسے جعلی ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (ٹی ٹی) کے تحت کبھی حمزہ، کبھی سلمان،
کبھی خاندان کے دوسرے افراد کے اکاؤنٹس میں رقم کی واپسی کی صورت میں جمع ہو جاتے، اکثر یہ بھی ہوتا کہ سلمان شہباز کے دفتر سے رقم سرکلر روڈ لاہور کے نجی بینک برانچ میں آتی، جہاں سے جعلی کاغذوں میں رقم فرضی طور پر برطانیہ، دبئی، ہانگ کانگ، کینیڈا جاتی، پھر جعلی ٹی ٹی کے ذریعے رقم کسی فرضی نام سے سرمایہ کاری کی صورت میں واپس شہباز خاندان کے اکاؤنٹ میں آ جاتی، اس مبینہ منی لانڈرنگ نیٹ ورک کے کاریگروں نے شہباز خاندان کو محبوب علی، منظور احمد، نصر احمد، عزیز یوسف ہارون، محمد رفیق، محمد عرفان، غلام رسول، محمد شکور کے ناموں سے 3سو مرتبہ رقمیں باہر سے بھجوائیں، 23 بار پیسے حمزہ، دو سو مرتبہ سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں آئے، یہ اسی پیسے کی برکتیں، دیکھتے ہی دیکھتے حمزہ کے اثاثے دو ہزار فیصد جبکہ سلمان شہباز کی جائیدادیں ساڑھے آٹھ ہزار فیصد بڑھیں، یہ بھی بتاتا جاؤں، نیب شہباز شریف سے بھی پوچھ چکا کہ حضور ساڑھے 10 لاکھ پاؤنڈز کے جو چار لندن فلیٹس 30جون 2008 کو اپنے اثاثہ جات میں ڈکلیئر کئے وہ کیسے خریدے، جو دو بیچے، ان کی منی ٹریل اور پھر آپ تو بحیثیت وزیراعلیٰ اپنی تنخواہ عطیہ کرتے رہے،عجیب بات، جیسے حسین نواز کے بھیجے کروڑوں روپے وزیراعظم کیمپ آفس کے ڈرائیور پنوں خان کے اکاؤنٹ میں آتے جاتے رہے، اسے پتا ہی نہ چلا، جیسے کراچی میں اورنگی ٹاؤن کا عبدالقادر المعروف فالودے والا بے خبری میں ارب پتی ہو گیا، ویسے ہی لاہور کا پاپڑ فروش منظور احمد بھی بے خبر کروڑ پتی نکلا
جی ہاں بینک ریکارڈ کے مطابق پاپڑ فروش منظور احمد جو منی لانڈرنگ کیس میں زیر حراست قاسم قیوم کی کرنسی ایکسچینج پر پارٹ ٹائم ’کیش بوائے‘ بھی رہا، کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ برطانیہ، دبئی سے لاکھوں ڈالر، درہم حمزہ کے اکاؤنٹ میں بھجواتا رہا، جس کا پاسپورٹ بھی نہ بنا ہو، جس نے کراچی بھی نہ دیکھا ہو، جو خود پاپڑ بیچ رہا، وہ برطانیہ، دبئی سے حمزہ کو نہ صرف کروڑوں روپے بھجوا رہا بلکہ حمزہ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرتا، سلیپنگ پارٹنر بھی، واہ جی واہ، کیا بات ہے، ایک طرف پاپڑ فروش، کرنسی ایکسچینج میں کیش بوائے، دوسری طرف لاکھوں ڈالر حمزہ کو بھجوا رہا، آگے سنئے جیسے حسین نواز کے بھیجے پیسے وزیراعظم کیمپ آفس کے ویٹر کرامت، لیاقت نکلواتے، آگے پہنچاتے رہے، جیسے کراچی کے شادمان ٹاؤن کا اقبال آرائیں مرنے کے بعد بھی 3مختلف بینکوں میں 4اکاؤنٹس کھلوا کر 4 ارب 60 کروڑ جمع کروا، نکلوا چکا، ویسے ہی شہباز شریف مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں محبوب علی کو یہ پتا ہی نہیں کہ آئے روز وہ شہباز خاندان کو برطانیہ سے لاکھوں پاؤنڈ بھجوا رہا، جی ہاں، اسٹیٹ بینک لاہور کے باہر گھوم پھر کر نئے نوٹ بیچنے والے محبوب علی کو یہ علم ہی نہیں کہ اس کا شناختی کارڈ بھی کاریگر استعمال کر گئے۔لیکن قادر فالودے والے، نواز شریف کے ڈرائیور پنوں خان، پاپڑ فروش منظور احمد، اقبال آرائیں، جاتی امراء کے ویٹر کرامت، لیاقت اور نئے نوٹ بیچنے والے محبوب علی کو پتا چل بھی جاتا تو ان بے چاروں نے کیا کر لینا تھا، یہ بھی سنتے جائیے! دبئی کی برلاس جنرل ٹریڈنگ وہ مبینہ جعلی کمپنی جو زرداری منی لانڈرنگ جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی اور شہباز خاندان کی مبینہ منی لانڈرنگ میں بھی، مذکورہ کمپنی کا مشتاق محمد المعروف مشتاق چینی کے ذریعے حمزہ شہباز سے لنک نکلا، ویسے کتنی لذیذ بات ہے کہ ایک طرف 2008 میں انور مجید کی ایک شوگر مل، 3 کمپنیاں اور 2018ء میں ہو جائیں 16شوگر ملیں، 93 کمپنیاں، 6 بجلی پلانٹ، فیکٹریاں الگ، دوسری طرف 2003ء میں سلمان شہباز کے اثاثے 21ہزار اور 2018 میں ڈکلیئر شدہ اثاثے 3ارب سے زیادہ، پیارے بچو! اسے ترقی کہتے ہیں۔