تحریر : چودھری ناصر گجر
کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنے اخراجات اور خریداری کے معاملے میں اعتدال،توازن اورمیانہ روی اختیار کرے اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ایک عام آدمی کی ضروریات بہت زیادہ نہیں ہیں کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی،پہننے کے لیے کپڑے اور رہائش کے لیے مکان۔اب انسان نے اپنی ان مختصر اور سادہ ضروریات کو کھینچ تان کر بہت پھیلا لیا ہے انواع و اقسام کے کھانے ،طرح طرح کے سالن ،پلائو، قورمہ، بریانی، کوفتے، کباب، جیلی، جام، مکھن ،انڈا، پھر انڈا کئی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے ظاہر ہے انسان ان سب چیزوں کو بیک وقت استعمال نہیں کر سکتا اسی طرح مختلف ڈیزائنوںکے کپڑوں کے بیسیوں جوڑے ،صبح کا لباس الگ،شام کا الگ،گھر کا الگ،دفتر کا الگ اور رات کو سونے کا الگ۔طرح طرح کے جوتوں کے ڈھیروں جوڑے،مکان وسیع وعریض ،ضروریات اور آرام سے بڑھ کر تعیشات کا استعمال ،آمد ورفت کے لیے موٹر سایکلیں اور کئی کئی کاریں۔یہ طرزِ زندگی فضول خرچی کا غماز ہے اور کفایت شعاری کے طریقے کے بالکل بر عکس۔انسان کے پاس خواہ دولت کتنی ہو اور اس کے وسائل کیسے ہی۔
بے حد و حساب ہوں بہر حال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہونے والے ہیں لہذا ایک انسان کے لیے دانشمندانہ طرزِعمل یہ ہے کہ جہں ایک سو روپے کے خرچ سے ضرورت پوری ہو سکتی ہے وہاں ایک روپیہ بھی زائد خرچ نہ کیا جائے اگر ایک کم قیمت کی اچھی چیز مِل رہی ہو تو محض فیشن کے لیے زیادہ قیمت کی چیز نہ خریدی جائے ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہمیںفضول خرچی سے روکتا ہے کھانے پینے کے معاملے میں قرآن حکیم کی ہدایت ہے :کُلُو ا وَاشُرَبُوا وَلَاتُسرِفُو۔ترجمہ:کھائو پیو اور اسراف (فضول خرچی )نہ کرو ۔اسی طرح جو لوگ عام زندگی میں مسرفانہ رویہ اپناتے ہیں انہیں شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے فرمایا:اِنَّ المُبذِّرِینَِ کانوا اخْوَانَ الشیاطین۔ترجمہ:بے شک فضول فرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔گویا فضول خرچی ایک شیطانی طرزِ عمل ہے جس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
در حقیقت فضول خرچی ،سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے جدید دور میں اشتہار بازی نے ہماری زند گیوں سے سادگی کو ختم کر دیا ہے نئے فیشن ،نئے ڈیزائن اور نئی نئی چیزوں نے کی کثرت نے ہماری زندگیوں میں زہر گھول کر رکھ دیا ہے ہم نت نئی چیزوں کے شوق میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں پھر قرض لیتے ہیں اور کچھ نہیں تو قرض پر چیزیں لے کر قسطوں میں ادائیگیاں کرتے ہیں ۔ہمارے بزرگوں اور بڑوں خصوصاً حضور پاکۖ اور آپ کے ساتھیوں نے ہمارے لیے زندگی اور معاشرت کا جو نمونہ چھوڑا وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی تھا۔ہم نے سادگی کے راستے کو چھوڑ کر خود کو مشکل میں مبتلا کر لیا ہے۔
کفایت شعاری ہماری اپنی ضرورت بھی ہے کم روپیہ خرچ کریں گے ،غیر ضروری اخراجات سے بچیں گے تو ہم کچھ پس انداز اور بچت کرنے کے لائق ہو سکیں گے یہ بچایا ہوا روپیا کل کسی مصیبت یا مشکل میں ہمارے ہی کام آئے گا یوں انفرادی سطح پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ مہیا کرتی ہے اجتماعی حیثیت سے دیکھیں تو یہ بچایا ہوا روپیا ملک کی ترقیاتی سکیموں میں استعمال ہو گا اور اس کا فائدہ پورے ملک اور پوری قوم کو پہنچے گا ۔کفایت شعاری سے مہنگائی کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے معاشیات کا اصول ہے کہ خریداری جتنی زیادہ ہو گی قیمتوں میں اتنا ہی اضافہ ہو گا اگر ہم بے تحاشہ خریداری سے اجتناب کریں تو قیمتوں میں اضافے کا رحجان کم ہو گا ،قیمتیں اعتدال پر رہیںگی اور یوں مہنگائی سے کافی حد تک چھٹکارا ملے گا ۔درآمد شدہ اشیاء کے سلسلے میں کفایت شعاری کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔
کیوںکہ غیر ملکی اشیاء پر ہم قیمتی زر مبادلہ خرچ کرتے ہیں اگر ہم غیر ملکی چیزوں کی بجائے پاکستانی مصنوعات خریدیں گے تو زر مبادلہ بچے گا اور زیادہ ضروری اور کار آمد مشینری وغیرہ کی خریداری میں کام آئے گا۔پس غیر ملکی اشیاء کی خریداری سے بچنا بھی کفایت شعاری کی ہی ایک صورت ہے اور یہ ہماری قومی ضرورت بھی ہے مثل مشہور ہے کہ چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے چاہیئںیعنی عقل مندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں۔
نمود و نمائش سے پر ہیز کریں ۔شاندار عمارات ،آرائشی ساز وسامان ،اشیائے تعیش اور فیشن پرستی کی دوڑ میں شریک ہونے کی بجائے اپنی ضروریات کو محدود رکھیں ۔ظاہر پرستی کا رویہ چھوڑ کر سادہ پرستی اپنائیں ۔اِس طرح نا صرف ہم مالی طور پر آسودہ ہوں گے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوشحال بنائے گی اِس کا اثر ہماری ملکی معیشت پر مرتب ہو گا یوں ہماری دنیاوی زندگی کے ساتھ عاقبت بھی سنور جائے گی۔
تحریر : چودھری ناصر گجر