سال 2012ء کے آس پاس آسٹریلیا میں بچوں کے خلاف کچھ ایسے جنسی جرائم رپورٹ ہوئے جس میں چند پادری ملوث پائےگئے. آسٹریلوی ریاست فوراً متحرک ہوئی اور ایک پارلیمانی کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کیا. پارلیمانی کمیٹی نے کیتھولک چرچ سے ان واقعات پرمکمل جواب طلب کیا, ستمبر 2012ء میں کیتھولک چرچ نے پارلیمانی کمیٹی کو ایک رپورٹ پیش کی, جس میں یہ انشکشاف ہوا کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے 600 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد آسٹریلوی عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اس وقت کی حکومت پر ان مکروہ واقعات کی روک تھام کیلئے عوامی دباؤ اس حد تک بڑھ گیا کہ تب کے آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گیلارڈ نے ایک نیشنل انکوائری کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اس نیشنل انکوائری کے تحت جائزہ لیا جائے گا کہ بچوں کے ساتھ بد فعلی کے کیسوں کے بعد ملکی اداروں کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اس کمیشن کو رائل انکوائری کمیشن کا نام دیا گیا جبکہ حکومت کی طرف سے اسے ہر اس ادارے (بچوں سے متعلقہ) نجی عوامی یا غیر حکومتی ادارے بچوں کے ساتھ شامل ہیں سے تحقیق کا مکمل اختیار دیا گیا۔
اس انکوائری کمیشن نے 5 سال تک مکمل اور جامع تحقیقات کیں اور 2017ء میں ایک رپورٹ جاری کرکے ان وجوہات اور ملکی نظام کے نقائص کی نشاندہی کی جس کی وجہ سے بچے جنسی جرائم کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کمیشن نے جنسی جرائم کا شکار بننے والے 8 ہزار بچوں کی شہادتیں ریکارڈ کیں، رائل کمیشن نے 15 ہزار افراد سے شہادتوں کیلئے رابطہ کیا کمیشن نے 230 استغاثہ دائر کئے۔
کمیشن نے پورے ملک میں 57 کھلی سماعتیں کیں، 41 ہزار سے زائد فون کالز ریسیو کیں، محکمہ پولیس کی 2559 غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی، بچوں کو جنسی تشدد سے بچانے کیلئے کیتھولک چرچ کو 400 تجاویز بھی دیں۔ کمیشن رپورٹ کے مطابق ملکی ادارے بچوں کے تحفظ میں مکمل ناکام ہوئے۔ کمیشن نے ملکی اداروں پر کوتاہی کے 2500 الزامات عائد کئے۔
اے نیشنل ٹریجیڈی ھیڈ بین ایکس پوسڈ” اس رپورٹ کی اشاعت پر آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرنبل نےکہا تھا کہ یہ ایک قومی المیہ کا انکشاف ہے۔”
رائل کمیشن کی اس رپورٹ پر اب آسٹریلوی پارلیمنٹ بچوں کو جنسی جرائم سے بچانے کیلئے نہ صرف سخت قوانین اور سزاؤں کا جائزہ لے رہا ہے بلکہ اس کی روک تھام کیلئے ایک قومی پالیسی بھی تشکیل دی جارہی ہے۔
کاش زینب کے واقعہ کے بعد حکومت پاکستان بھی کوئی رائل کمیشن بنائے جو ایسی سفارشات پیش کرے کہ حکومت تعلیمی اداروں میں بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے انتظامات کرے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔
گھروں میں والدین اپنے بچوں سے روز نیہں تو ہفتے میں ایک دفعہ ضرور گڈ ٹچ اوربیڈ ٹچ کے بارے میں بات کریں۔ حکومت کوئی ایسے سینٹرز (مراکز) قائم کرئے جہاں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو تربیت دی جائے تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔