اسلام آباد (ویب ڈیسک ) آسٹریلیا کے آبی امور کے دو ماہرین ڈاکٹر جون اور پاکستانی نژاد سائنسدان ڈاکٹر مبین الحق نے کہا ہے کہ پاکستان کو اپنے آبی وسائل کے بارے میں صحیح معلومات اور اعدادوشمار حاصل کرنا چاہئیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے مرتب ہونے والے اثرات‘ برف باری اور برف پگھلنے کے بعد پانی کا بہاؤ کیا ہو گا
نامورصحافی جاوید صدیق اپنے تجزیہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں درست معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ وقت نیوز کے پروگرام ایمبیسی روڈ میں اظہار خیال کرتے ہوئے آسٹریلیا کے آبی امور کے ماہر ڈاکٹر جون نے کہا کہ آسٹریلیا اور پاکستان کے آبی وسائل میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔ پاکستان کی طرح آسٹریلیا میں بھی ایک وفاقی نظام حکومت ہے اور اسے بھی اپنے صوبوں کی پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پانی کے ضیاع کو روکنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں آسٹریلوی ماہرین نے کہا کہ یہ تصور کہ پانی ضائع ہو رہا ہے زیادہ درست نہیں جو پانی زیرزمین چلا جاتا ہے وہ بھی قابل استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کو زیرزمین پانی کے ذخائر بنانا چاہئیں۔ آسٹریلوی ماہرین سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں یہ تصور عام ہے کہ ہمارے دریاؤں کا پانی سمندر میں گر کر ضائع ہو رہا ہے تو آسٹریلیا کے آبی امور کے ماہر ڈاکٹر جون نے کہا کہ پانی کے ضیاع کا پاکستان میں تصور درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دریاؤں کے پانی کا ایک حصہ سمندر میں ضرور گرنا چاہئے ورنہ سمندری مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک سمجھوتے کے تحت پانی فراہم کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ایک میمورنڈم آف انڈر سٹینڈنگ پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت پاکستان اور آسٹریلیا ایک دوسرے سے پانی کے وسائل کی مینجمنٹ اور پانی کی فراہمی کے میدان میں مشترکہ تجربات اور مشکلات ایک دوسرے سے شیئر کریں گے۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان کے ماہرین کو اپنے آبی وسائل کا درست ادراک ہے پاکستانی نژاد آبی ریسرچ سائنسدان ڈاکٹر مبین الحق نے کہا کہ پاکستانی ماہرین کو پانی کے وسائل کا علم ہے۔ پاکستانی نژاد سائنسدان ڈاکٹر مبین الحق نے کہا کہ پاکستان کو سندھ طاس منصوبے کے تحت اپنے تین مغربی دریاؤں کے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانا چاہئیں۔ پاکستان کو زراعت اور آبپاشی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بھی بروئے کار لانا چاہئے۔ زیرزمین پانی کو ذخیرہ کر کے اس سے بھی پاکستان بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔