تحریر: محمد یاسین صدیق
ہر سال 16 دسمبر آتا ہے گزر جاتا ہے اس دفعہ بھی آیا اور گزر گیا اس دن سچا ،محب وطن پاکستانی خون کے آنسو روتا ہے ،اس دن پاکستان اپنوں کی نا اہلی کے سبب دو حصوں میں بٹ گیا اس کے دو ٹکڑے ہو گئے آج اس سانحہ کو ہوئے 43 سال ہو گئے ابھی تک اس کے اسباب کے بارے میں کوئی حتمی تحقیق سامنے نہیں آئی نہ ہی اپنی ان غلطیوں کی نشاندی کی گئی ہے جن کے سبب یہ حادثہ رونما ہوا اور نہ ہی ان باتوں سے عوام کو آگاہ کیا گیا ہیجو کمیشن بنا تھا اس کی رپورٹ بھی خفیہ رکھی گئی ہے ۔ہم اس مختصر تحریر میںان اسباب پر بات کر رہے ہیں جو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا سبب بنے۔
اس وقت بھی بہت سے دانشوروں کو اس بیماری کا علم تھا جس کا علاج حکمرانوں کے پاس تھامگر حکمران اس کے علاج کرنے سے قاصر تھے کیونکہ سب کو اپنے مفادات عزیز تھے کہا جاتا ہے کہ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا اسے تاریخ سبق سیکھا دیتی ہے اور یہ بھی کہ کوئی حادثہ یک دم نہیں ہوتا ۔جب پاکستان وجود میں آیا تو مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش ) میں ہندووئں کی ایک بہت بڑی تعداد مقیم تھی جو کہ صاحب حیثیت بھی تھے مال دار تھے ۔اور پڑھے لکھے بھی تھے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ مشرقی پاکستان کی ایک یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین بھی ایک ہندو رہا ۔اس بات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہندو کافی تعداد میں تھے ،اہم عہدوں پر تھے ،صاحب حیثیت تھے مال دار تھے ،ان کا اثر ورسوخ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ہندو ئوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف مواد شامل کیا ،اس کی وجہ بھی پاکستان اور اس کے سیاست دان ہی بنے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان کو نظر انداز کیے رکھا ۔ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان نظریہ پاکستان مشترک تھا جسے چالاک دشمن نے تعلیم ،ذرائع ابلاغ ،فلم و ڈراموں کے ذریعے کمزور کیا اور نادان حکمرانوں نے اس پر توجہ نہ دی ،اس وقت بھی ہمارے اہل اقتدار کی آنکھ نہ کھلی اور نہ ہی آج اس جانب کوئی توجہ ہے ۔بنگالی ان صاحب حیثیت کے سامنے بے بس تھے مجبور تھے کیونکہ جن کو ان کی مدد کو آنا چاہیے تھے انہوں نے فیصلہ کرنے میں بہت دیر کر دی۔
اس طرح وہ لوگ جو دل سے بنگلہ دیش بننے کے خلاف تھے مگر مجبوری اورجان کے ڈر سے وہ بھی مخالف کیمپ میں چلے گے۔ ایک اصول ہے کہ جس کی اپنے قدر نہیں کرتے وہ غیروں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور اس طرح بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار ہوتی چلی گئی۔مکتی باہنی کوبنایابھی بھارت نے اور تربیت بھی کی اسے اپنی سرپرستی میں اپنے ہی بھائیوں سے لڑا کر 1965 کی شکست کا بدلہ لیا ۔اس کے لیے اس کی تیاریاں شروع سے ہی تھی۔ اصل دکھ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس سے واقف کیوں نا تھے ؟اگر واقف تھے تو اس کو نظر انداز کیوں کیا؟
مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے الگ ہو جانے کے حادثے کے اسباب میں سے ایک سبب لسانی بھی تھا ،مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی اکثریت تھی ان کا مطالبہ تھا کہ سرکاری زبان بنگالی کو قرار دیا جائے ،اس مطالبہ کو دشمنوں نے ہوا دی اپنوں نے حل کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ ایک تحریک بن گیا ۔جسے بعد ازاں قابو کرنا ممکن نہ رہا ۔
بھارت سے مغربی پاکستان کے خلاف لٹریچر مشرقی پاکستان آنے لگا ،اس کو خوب پھیلایا گیا جس نے نوجوانوں کی ذہن سازی کا کام دیا ۔ غربت ،بیروزگاری، مہنگائی نے اس لٹریچر کو مقبول بنا دیا ۔مشرقی پاکستان میں 1300 سکول اور 50 کے قریب کالج ایسے تھے جو براہ راستا ہندووں کے کنٹرول میں تھے جیسا کہ اوپر بھی ذکر کیا گیا ہے ،اس کے ساتھ ایک بات اور توجہ چاہتی ہے بھارتی ثقافت نے بھی حملہ کیا جیسا کہ ا نڈین فلموں میں آج بھی پاکستان مخالف مواد شامل ہوتا ہے ،اس وقت بھی تھا اس وقت بھی اس بابت ہمارے دانشور غور نہیں فرما رہے تھے اور نہ ہی آج فرما رہے ہیں ثقافتی طور پر یہ جنگ بھارت تب بھی اور اب بھی جیت چکا ہے۔ چونکہ یہ بات بہت اہم ہے
اس لیے اس پر مزید کہنا چاہتا ہوں کہ مسلسل پاکستان کے خلاف فلموں اور ڈراموں میں ایسا مواد دیا جاتا ہے جو اساس پاکستان ،نظریہ پاکستان کے خلاف ہوتا ہے اور یہ کام ہماری نوجوان نسل کو اپنی اساس سے دور کرتا جا رہا ہے اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جسے کہ مشرقی پاکستان کے معاملے میں کیا گیا ۔فلموں میں پاکستان کو دہشتگرد ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔یا ایسا ملک جو دہشت گردوں کی پشت پنائی کرتا ہے ۔بچوں کے لیے کارٹون اورجیوگرافی وغیرہ کی ڈبنگ ہندی زبان میں کی جاتی ہے اس طرح ہمارے بچے عام بول چال میں اردو کی بجائے ہندی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ اس کا حل یہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی مناسب حکمت عملی اپنائی جاتی۔ اب بھی اس کی اشد ضرورت ہے کہ اپنی فلم انڈسٹری کو مضبوط کیا جائے آج بھی ہمارے نوجوانوں کی اکثریت بھارتی ایکٹروں کو ہیرو خیال کرتی ہے
اس کا حل یہ بھی نہیں کہ اس پر پابندی لگادی جائے بھائی انٹر نیٹ کا زمانہ ہے اب پابندی ممکن نہیں اس کا حل یہ ہے کہ ان سے بہترڈرامے اور فلم سازی جو کہ اصلاحی بھی ہو اور موجودہ عہد کے مطابق بھی ہواور سچ پر بھی مبنی ہو جس میں اپنی ثقافت بھی ہو تاریخ بھی ہو اور موجودہ عہد کے مطابق بھی ہو ۔اس کے علاوہ جو بھی فیصلہ ہو اس پر عمل ہو اس پر غور فکر کی کل بھی ضرورت تھی اور آج اس سے کہیں زیادہ ہے ۔اس وقت مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان مخالف بہت سی تنظیمیں یک دم پیدا ہو گئیں جو پاکستان کے خلاف اشتہار باٹنے لگیں جن میں اس بات پر زور دیا جاتا کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کے حقوق غضب کیے ہوئے ہیں ۔بعض تجزیہ نگاروں کی نظر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سب سے بڑا سبب ہماری فوج کا مناسب وقت پر کاروا ئی نہ کرنا بھی ہے اور فوج کو بغاوت کچلنے کے اختیارات نہ دینا بھی ہے۔
اسے قوت فیصلہ کی کمی کہنا چاہیے جو بروقت نہ کیا گیا ۔جیسے آج بہت سے پاکستان کے دانشور بھارتی زبان بولتے ہیں ایسے ہی اس وقت بھی میڈیا پر بھارت کا کافی حد تک کنٹرول تھا ،اور ہمارے بہت سے دانشور ان کی بولی بولتے تھے۔ایسا انسانیت، حقوق، آزادی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ہندو اساتذہ اپنے مشن پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کرنا اسے کمزور کرنا وغیرہ پر کام کرتے رہے، انڈین ثقافت اپنا رنگ دکھاتی رہی ،مشرقی پاکستان کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے میں مغربی پاکستان کے بیور وکریسی نے بھی اپنا حصہ ملایا غلام ابن غلام ،یہ احساس کمتری کے مارے لوگ ،خود کو روشن خیال کہنے والے اور خود کو صالحین سمجھنے والے دونوں ہی پاکستان کو توڑنے والے اور کمزور کرنے والے ہیں۔
مشرقی پاکستان کی معیشت پر 80 فیصد بھارتی یا ہندو قابض تھے یہ بھی مشرقی پاکستان کے الگ ہو جانے کا ایک بہت بڑا سبب ہے اس سے ہوا یہ کہ وہ لوگ جو دل سے مکتی باہنی کے مخالف تھے وہ بھی حالات سے مایوس ہو کر، جان بچانے کے لیے ،ظلم سے بچنے کے لیے عامی لیگ میں اور مکتی باہنی میں شامل ہو گے۔ اور بہت سوں کو خرید لیا گیا۔ ایسی بہت سی وجوہات نے مل کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن سب سے اہم اپنوں کی نااہلی تھا۔
تحریر : محمد یاسین صدیق