تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستانی قوم کو اس وقت شدید پریشانی کا سامناہے کہ وہ ایسی اتھارٹی کہاں سے لائیں جو حرام کو کنٹرول کرے کیونکہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔پاکستان کے 96.7 فیصد شہری مسلمان ہیں جن میں سے تقریباً 20 فیصد اہل تشیع، 77 فیصد اہل سنت اور تقریباً 3 فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقریباً ایک فیصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ کراچی میں پارسی، پنجاب وسرحد میں سکھ اور شمالی علاقوں میں قبائلی مذاہب کے پیرو کار بھی موجود ہیں۔
آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔ مارشل لاء کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحد گی کے بعد 1972 کو 1970 کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوئیں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کے ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے رپورٹ پیش کرنے میں کی بالآخر 10 اپریل 1973 کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973 کو یہ آئین ملک میں نافذ کر دیا گیا۔
شریعت اسلامی کی اصطلاح، اسلام میں حرام اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جس کی حرمت صاف الفاظ میں قرآنی حکم اور حدیث نبویۖ سے ثابت ہو، یعنی ایسی دلیل جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو۔جیسے مردار، خون، خنزیر کا کھانا اور ناحق قتل، بدکاری، سود، شراب نوشی، والدین کی نافرمانی، غیبت اور جھوٹ بولنا وغیرہ سب اسلام میں حرام ہیں اور ان سے بچنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔اسلامی فقہ میں حرام کی اصطلاح فرض کے مقابل ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کی حرمت کا انکار کرے تو اس پر حکم کفر جاری کیا جاتا ہے۔ جبکہ بلا عذر شرعی اسے اپنانے والا فاسق اور سزا کا مستحق ہوتا ہے۔قرآن پاک میں مندرجہ ذیل چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ مردہ جانور ، خون ، خنزیر ”سور” وہ جانور جو غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا جائے۔ مرنے سے ہلے جانور ذبح کر دیا جائے اور خون نکل آئے تو وہ حرام نہیں ہوتا لیکن اگر خون نہ نکل سکے تو حرام ہے۔ ماں، بیٹی ، سگی بہن ، سوتیلی بیٹی ، خالہ اوربھتیجی ؛بھانجی ،رضاعی ماں، ساس، اور بہو۔ ان کے علاوہ بیک وقت دو سگی بہنوں سے یا کسی کی منکوحہ بیوی یا اپنی رضاعی بہن سے نکاح حرام ہے۔ بعض کام حرام ہیں جیسے سود لینا ، جوا کھیلنا ، شراب پینا ، زنا ، چوری ، قتل و غارت ، جھوٹ بولنا ، رشوت لینا اور دینا ، خیانت ، غبن، ظلم وغیرہ چندماہ پہلے ملائیشیا میں کیڈبری کی دو مصنوعات میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ کا انکشاف ہوا تو اہلکاروں کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر کی گئی جانچ میں کیڈبری کی چاکلیٹ مصنوعات میں خنزیر کی چربی کے اجزا پائے گئے تھے،ملائیشیا میں مسلم تنظیموں نے چاکلیٹ بنانے والی کمپنی کیڈبری کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد اس کمپنی نے ملائیشیا میں بازار سے اپنی تمام چاکلیٹ مصنوعات کو واپس لے لیا تھا۔ ملائیشیا میں ایک چینی کمپنی نے بھی اپنی تمام دکانوں میں کیڈبری کی مصنوعات کی فروخت پر پابندی کا اعلان کر دیا۔
پاکستان میں بھی عوام کو حرام اجزاوالی اشیاء کھلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں امریکہ، برطانیہ، انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک سے درآمد کردہ 23حرام اجزاء والے پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب فوڈ آئٹمز کی لسٹ پیش کر دی گئیں۔جس میں پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے حکام نے ڈاکٹر شاہدہ اختر کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں 23حرام اجزاء والے درآمد کردہ فوڈ آئٹمز کی فہرست پیش کی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہالینڈ، برطانیہ، انڈونیشیا، سپین، امریکہ، فرانس اور ڈنمارک سے درآمد ہونے والے سیلماسوپ، کنور چکن سوپ، کپ اے سوپ، ٹیولپ چکن، فروٹ کاکٹل، جمی پیزہ سمیت 23 فوڈ آئٹمز میں حرام اجزاء شامل ہیں۔اس حوالے سے ایڈیشنل سیکرٹری میاں اعجاز نے کہا ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب 67 فیصد اشیاء میں حرام اجزاء ہیں۔ حلال اتھارٹی نہ ہونے سے عوام حرام اشیاء کھانے پر مجبور ہیں۔
لیکن ماہرین اور مبصرین ایڈیشنل سیکرٹری میاں اعجاز کے اس موقف سے متفق نہیں کہ پاکستان میں حلال اتھارٹی نہ ہونے سے عوام حرام اشیاء کھانے پرمجبور ہیں۔کیونکہ اس وقت شائد دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے کہ کہاں اس قدربحرانوں کا سامنا ہے کہ کو ئی اتھارٹی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ،بم دھماکے،تجاوزات،کرپشن ،لوٹ مار ،غربت وغیرہ وغیرہ مسائل نہیں بلکہ صرف انکشافات ہیں توپھرکنٹرول کرنے کیلئے کوئی اتھارٹی کہاں ہوگی۔ اس تو صرف سود لینا ، جوا کھیلنا ، شراب پینا ، زنا ، چوری ، قتل و غارت ، جھوٹ بولنا ، رشوت لینا اور دینا ، خیانت ، غبن، ظلم وغیرہ میں متعدد سیاستدان ودیگرابااثرافراد شامل ہیں یہ تو صر ف انکشافات ہیں۔اگریہ حرام ہے تو ایسی اتھارٹی کہاں سے لائیں جو حرام کو کنٹرول کرے۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ