اسلام آباد (ویب ڈیسک) آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ تین رکنی بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔ دوران سماعت بیرسٹر فروغ نسیم نے
اپنا وکالت نامہ عدالت میں جمع کردیا۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملامت میں تو سیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا سمجھ نہیں سکا ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ ریاض راہی کی درخواست پر سماعت کی جاری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل لئے گئے اقدامات سے متعلق بتائے۔ غلطیوں کی نشاندہی کی حکومت نے انہیں تسلیم کرلیا۔ اسی لئے انہی ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی۔جس پر ردعمل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی۔ جسٹس منصور علی نے ریماکس دیتے ہوئے کہا جی کیا ریٹائرڈجنرل بھی آرمی چیف بن سکتا ہے؟ توسیع سے متعلق قانون نہ ہونے کا تاثر غلط ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کابینہ نے کل کیا منظوری دی ہے ؟ ہمیں دکھائیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ل بھی میں نے بتایا کہ توسیع کےنوٹیفکیشن پرمتعدد وزراکےجواب کا انتظار تھا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر جواب نہ آئے تو کیا اسے ہاں سمجھا جاتا ہے ؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں قواعد کے مطابق ایسا ہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا صرف اس صورت میں سمجھا جاتا ہے جب مقررہ مدت میں جواب دینا ہو۔ اگر اوپن مینڈیٹ تھا تو چھوڑ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ نے ہماری غلطیوں کی نشاندہی کو مان لیا۔ آپ نے مدت مقررنہیں کی تھی لہذا آپ کےسوال کاجواب آج بھی ہاں تصورنہیں کیاجاسکتا ،
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیاکل رولزمیں تبدیلی کےوقت کابینہ کو رولز پربحث کیلئے وقت دیا گیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ اراکین کو وقت دیا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کابینہ کے کل کے فیصلوں سے متعلق دستاویزات عدالت میں جمع کروا دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ کل جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی انہیں تسلیم کر لیا گیا ، خامی تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصحیح کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں خامیاں تسلیم نہیں کیا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اگر انہیں خامیاں تسلیم نہیں کیا گیا تو تصحیح کیوں کی گئی ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف گیارہ اراکین نے ہاں میں جواب دیا تھا۔ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں،توسیع سےمتعلق قانون نہ ہونےکا تاثر غلط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر باقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتائیں۔ کل جو آپ نے دستاویز دی تھی اُس میں گیارہ اراکین نے یس لکھا ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہے تو دکھائیں۔ اب تو اس حکومت کی کارروائی آگے جا چکی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کابینہ سرکولیشن میں وقت مقرر نہیں تو اس نکتے کو چھوڑ دیں۔جو عدالت نے کل غلطیاں نکالی تھیں انہیں تسلیم کر کے ٹھیک کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے کبھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کےارکان کےمقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے آپ کی دستاویزات کو دیکھ کر حکم دیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تسلی سے سب کو سنیں گے کوئی جلدی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ازسرنو اور توسیع سے متعلق قانون دکھائیں جن پرعمل کیا۔اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کردی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں پانچ 6جرنیل خودکو دس دس سال ایکسٹینشن دیتے رہے۔ رول 19میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے،اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کےمطابق فیصلہ کردیتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے ، تعیناتی صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد فوجی ایکٹ میں تبدیلیاں ہوئیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیاکہ آرمی چیف کتنی مدت کے لیے تعینات ہوتے ہیں۔ آرٹیکل243میں تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین وقانون کی کس شق کےتحت قواعد تبدیل کیے گئے۔ جسٹس مظہر عالم خیل نے کہا کہ ہمارے پاس وہ بھی نہیں آیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس ترمیمی مسودہ بھی آیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 243تو مراعات اور دیگر معاملات سے متعلق ہے۔ قواعد کودیکھنا ضروری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یا آرمی چیف حاضرسروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائرڈ جنرل بھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل255ان لوگوں کیلئےہے جو سروس سےنکالےجاچکےیا ریٹائرہوگئے۔ اس آرٹیکل کے تحت ان کو واپس بلایا جاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا مدت ملازمت تین سال کے لیے ہے ؟ تین سال کے بعد کیا ہو گا ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین سال تو نوٹی فکیشن میں لکھا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے۔یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اگر سوال اٹھ گیاہے تو اسے دیکھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جنرل چار 5مرتبہ خود کو توسیع دیتے رہتے ہیں۔ ہ معاملہ اب واضح ہونا چاہئیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لیفٹیننٹ جنرل4 سال بعدریٹائر ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 57سال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی بالکل رول میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو نوٹی فکیشن جاری ہوا تھا وہ بتائیں کیا کہتا ہے۔ کیا آرمی چیف کی تقرری کا نوٹی فکیشن رکارڈ پر موجود ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیس کی سماعت جاری ہے۔