گرمیاں ختم ہورہی تھیں۔ فیملی کے ساتھ عیدالاضحی منانے کینیڈا جانے کا پروگرام بن گیا۔ اکثر گرمیوں میں لندن اور کینیڈا جانے کا پروگرام بنتا ہے اور قارئین کو بیرون ممالک کی سیر اور واقعات سے آگاہ کرتا رہتا ہوں۔ کینیڈا میں 80فیصد پاکستانی ٹورنٹو میں رہتے ہیں جن میں بیشتر پڑھے لکھےپاکستانی 70کی دہائی میں جا کر آباد ہو گئے تھے اُس زمانے میں کینیڈا کو پڑھے لکھے افراد کی سخت ضرورت تھی ، پاکستانیوں کیلئے پیشگی ویزہ بھی نہیں ہوتا تھا اور امیگریشن بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ کینیڈا دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہر رہائش پذیر یا کینیڈین باشندوں کو مفت طبی
سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر، اسپتال اور ادویات انشورنس حکومت کی ذمہ داری ہے اگر کوئی غریب بے روزگار ہو تو حکومت رہائش اورروزمرہ کی ضروریات پوری کرتی ہے اور تمام مذاہب کو مکمل آزادی ہے۔ کسی کو کسی کے مذہب میں تنقید یا رکاوٹ کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے محلے میں ایک گرجا گھر ہے وہاں اتوار کو عیسائی، ہفتے کو یہودی اور جمعہ کو مسلمان اپنی اپنی عبادتیں کرتے ہیں۔ یہاں سڑکوں پر اہل تشیع محرم میں اپنا ماتمی جلوس نکالتے ہیں۔لا تعداد مساجد ہیں ۔اسی طرح ہندوئوں کے مندر سکھوں کے گردوارے، عیسائیوں کے گرجے ہر آبادی میں ہیں۔امام بارگاہیں، قادیانیوں کی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں۔ یہاں کسی مذہبی تصادم کی گنجائش نہیں ہے۔ اس ملک میں امن وامان کی بہترین مثالیں گزشتہ نصف دہائی سے عیاں ہیں۔ خصوصاً اس سال اس ملک کے نوجوان نو منتخب وزیراعظم جسٹن نے اکثریتی سیٹیں جیتی ہیں۔ امیگرینٹس کی اکثریت نے اُن کو کامیاب کروایا ہے۔ کامیابی کے بعد انہوں نے فرداً فرداً مساجد ،گردواروں ، گرجوں، یہودیوں کی عبادت گاہوں کا دورہ کیا اور اُن کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ساتھ ان کی امیگریشن کی سختیوں کو درجہ بہ درجہ کم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
خیر اب میں سیاحت کے موضوع پر آتاہوں اکثر پاکستانی بھی ٹورنٹوجاتے ہیں میرے ایک دوست نے ٹورنٹو سے 3گھنٹے کی فلائٹ سے کیلگری آنے کی دعوت دی عید میں دو ہفتے باقی تھے ۔فیملی کے ساتھ کیلگری پہنچ گئے۔ وہاں سے صرف 130کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شہر بیناف پر ریسورٹ بک کروایا۔ راستہ بھر خوبصورت پہاڑوں ، جھیلوں کا سلسلہ سڑکوں کے درمیان جنت کا نظارہ پیش کر رہا تھا ۔تمام راستے اللہ کی تعریف کرتے رہے اور صرف ڈیڑھ گھنٹے میں گاڑیوں سے پہنچ گئے ۔کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک میں ہر جگہ کرائے کی گاڑیاں ائیر پورٹس پر ہی مل جاتی ہیں گاڑیوں میں اب راستے بتانے کی ٹوم ٹوم کی سہولتیں موجود ہونے سے اب با آسانی منزل مقصود تک پہنچنے کی دشواری ختم ہو چکی ہے ریسورٹ پر سامان رکھا ۔ بیناف کی پہاڑیوں کے درمیان چیئر لفٹس تھیں ساتھ ساتھ گرم پانی کے چشمے بھی پھوٹ رہے تھے حکومت نے سیاحو ں کیلئے تالاب بنوا رکھے ہیں جس میں مرد ،عورتیں اور بچے گھنٹوں انجوائے کرتے ہیں ۔چیئر لفٹس بہت ہی بلندیوں پر لے جاتی ہیں خوبصورت نظارے ایک طرف ان پہاڑیوں پر پیدل چڑھنے والوںکیلئے میلوں راستے بنے ہوئے ہیں جن پر چل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر پہنچتے ہیں ۔ایسے بھی نوجوانوں کی ٹولیاں دیکھیں جو سائیکلوںپر اُن پگڈنڈیوں سے پہاڑوں کی چوٹیوں پرپہنچتے تھے ۔اس پورے خطے کو البرٹا پراونس کہتے ہیں اس کے داخلے کیلئے ہر گاڑی والے کو 19کینیڈین ڈالر یومیہ کا ٹکٹ لینا پڑتا ہے ۔تقریباً 500کلومیٹر پر نیشنل پارک بنا ہوا ہے۔ راستے میں جگہ جگہ سیاحوں کیلئے جھیلوں پر پارکنگ کی جگہیں مختص کی گئی ہیں اور لائن سے چھوٹے بڑے ہوٹلوں کی قطاریں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسرے دن بیناف سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بہت ہی خوبصورت جھیل ہے جس کا نام لیک لوئس ہے بالکل کاغان کی جھیل سیف الملوک کے مشابے تھی۔ جمعہ ، ہفتہ اور اتوار اس پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔لائن سے سینکڑوں ہوٹل تھے اور سب کے سب بھرے ہوئے تھے البتہ جھیل سے کچھ فاصلے پر ہوٹل میںکمرے دستیاب تھے مگر جھیل کے اطراف تمام ہوٹل بھرے ہوئے تھے ۔عام دنوں میں 100 ڈیڑھ سو ڈالر میں ڈبل کمرہ مل جاتا ہے مگر ویک اینڈ پر دگنے داموں پر ملتا ہے۔ہمارے پہاڑی علاقوں میں قدرتی مناظر تو ہیں مگر حکومت سیاحوں کیلئے سہولتیں فراہم نہیں کرتی تو غیر ملکی سیاح تو درکنار مقامی باشندے بھی گرمیوں میں کم ہی جاتے ہیں۔ جبکہ یہاں پوری دنیا سے سیاحو ںکا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہر ملک کا ریسٹورنٹ دستیاب ہے حتیٰ کہ کئی انڈین اور پاکستانی حلال کھانے بھی دستیاب تھے۔لاکھوں مسلمان بھی اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔الغرض تیسرے دن ہم اس جھیل سے 300 کلومیٹر دور جیسپر شہر 4 گھنٹے میں پہنچے ۔یہاں بھی راستے بھر وہی قدرتی مناظر جھیلیں پہاڑوں کے علاوہ کاغان کی طرح جگہ جگہ برف سے ڈھکے پہاڑ اور ایک بہت بڑا گلیشیئر تھا اس پر بھی سیاحوں کا ہجوم تھا ۔بسوں کے ذریعے سیاحوں کو نظارے کرانے کا بندوبست تھا۔ ایک پہاڑ کو کاٹ کر اس پر مصنوعی شیشے کا پل بنا یا ہوا تھا۔ ایک طرف پہاڑی سلسلہ تو نیچے بہتی ندی اوپر گلیشیئر بیک وقت تین نظارے سیاحوں کا لبھا رہے تھے ۔افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دنیا کا سب سے بڑا پہاڑوں کا سلسلہ ہونے کے باوجود ہم اُس سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اپنی اپنی سیاست چمکانے اور ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔20 کروڑ عوام کیلئے تفریح کا سامان ہی مہیا کر دیں تو قوم کم از کم اپنے بچوں کو ان مقامات خصوصا ً کاغان ، چترال ، اسکردو ، شنگریلا، سوات، کالام ، کافرستان ، گرم چشمہ ، ایبٹ آباد، گلگت بلتستان اور ہنزہ جیسے بہت خوبصورت تفریحی مقامات کی سیر کرادیں ۔ حکومت اگر خودان کو ڈویلپ نہیں کر سکتی تو پرائیوٹائز کر دے۔ ہمارے بہت سے ادارے آگے بڑھ کر ان کو خوبصورت بنانے میں اپنا سرمایہ لگا سکتے ہیں۔ حکومت صرف جگہ مہیا کرے اور اس پر ٹیکس نہ وصول کرے۔ جس طرح ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، سری لنکا اور مالدیپ میں مقامی اداروں نے سیاحوں کیلئے تفریحی مواقع فراہم کر کے غیر ملکی زر مبادلہ کمارہے ہیں۔ ہم خود بھی کر سکتے ہیں۔ غالباً پاکستان واحد ملک ہے جس میں سیاحوں کیلئے وزارت بھی نہیں رکھی گئی ہے الغرض چار دن میں ہم نے جومزے کئے وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔