counter easy hit

میرے دور میں دفن کر دو

Leadership

Leadership

تحریر : اسلم انجم قریشی
جب طرز حکمرانی درست نہ ہو تو معاشرے میں محرومیاں اور ناانصافیاں جنم لیتی ہیں جو ہر دور میں لمحہ فکریہ کا باعث بنتی ہیں اور جہاں قانون اور انصاف کا عمل ہوتا ہے وہاں ترقی منزل مقصود تک جاتی ہے اور اس طرح بے مثال قوموں نے معاشرے میں اپنا وجود تسلیم کراکر نصافت کے ذریعے انقلاب برپا کیا۔ انسان کا کسی بھی طبقات سے تعلق ہو اس کے بنیادی حقوق کی پاسداری حکمرانی پر لازم ملزوم ہے، جہاں حکمرانی کے اندر جانبداری کا عنصر پایہ جائے گا معاشرہ تقسیم ہوتا چلا جائے گا۔ یوں تو معاشرے میں جب سے انسان کا دنیا میں آیا تبدیلیاں رہنما ہوتی رہیں، قتل غارتگری کا بازار گرم رہا اور تباہ و برداری کا سلسلہ چلتا آرہا ہے اور آگے بھی چلتا رہے گا ،جب تک حکمران اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرینگے گزشتہ عرصے سے پاکستان میں جو روش اپنائی گئی جس کے نتیجے میں معاشرتی بُرائیاں اس قدر چڑھ کے بول رہی ہیں نہ دن کو چین نہ رات کو سکون عجیب سی ہیجان گی نے لوگوں کی زندگی کو اذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

آج کی صورتحال میںنہایت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ جسے عوام بھگت رہے ہیں۔ اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ جس سے آپس میں محبتیں ختم ہوگئیں فاصلے بڑھ گئے اور عوام مایوسی کے دلدل میں پھنس کر بے چینی کے عالم سے دوچار ہیںکہ وہ اپنی ذات پر اعتماد نہیں کرتا معاشی بدحالی کا یہ منظر ہے کہ عام انسان جس میں مرد خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں کہ اگر صبح کا ناشتہ کیا تو رات کا کھانا نہیں کھا سکتے اوردوپہر کا تزکرہ ہی نہیں جبکہ دیگر کو تو یہ بھی نصیب نہیں معاشی بدحالی نے لوگوں کو اس نہج پر پہنچادیا گیا کہ وہ رات کچھ خیال کرتے ہیں اور صبح ارادہ تبدیل ہوجاتا ہے وہ اس لئے کہ لوگوں کے اند احساس محرومیوں نے اپنا گھر کرلیا ہے۔

جن کا خدوخال کچھ اس طرح ہے کہ سیاسی ۔سماجی مذہبی حالت ااسقدر ناگفتہ ہوتے چلے گئے ۔ قتل گارتگری کی ایسی لہر چلی جس نے معاشرے کے نظام کو الٹ دیا اور چاروں طرف اندھیرا چھا گیا لوگ ایک دوسرے کو پہچاننے سے قاصر ہوگئے معاشی بدحالی اور تنگدستی کے جال میں جکڑ گئے اور ابتک اس سے نہیں نکل پارہے ہیں ان ادوار میںکئی دعوے دار حکمران حکمرانی کرکے چلے گئے لیکن عوام میں وہ اپنا اعتماد بحال نہیں کرسکے سازشی مفاد پرست سیاستدان اور اس ملک پاکستان میں حکمرانی کرنے والے حکمران اپنی اپنی حکومت کو سہارا دینے کے لئے عوام کو سبز باغ دکھاتے رہے مگر وہ عوام کو سکون نہیں دے سکے حالت نے انتہائی بھیانک اثرات دیے جس کے نتیجے میں لوگ ذہنی توازن کھو بیٹھے اور بھوک افلاس میں مبتلا لوگ ایسے اقدام پر مجبور ہوگئے جو شرم کا باعث ہے۔ مسائل کی جانب جو کہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہو تے جا رہے ہیں۔

ایک حقیقت صحت کے مراکز کو دیکھ لیں ایک عام انسان مریض جسے مختف بیماریوں نے جکڑا ہوا ہے اور ان بیماریوں کے سبب گھر کی کفالت نہیں کرسکتا کیوں کہ اس مریض کو خطرناک مرض لاحق ہے اور وہ ان حالت میں علاج نہیں کراسکتا اگر ان مراکز سے علاج کرواتا بھی ہے تو وہ سہولیات میسر نہیں ہوتی جسکی اس کو اشد ضرورت ہے اور آخر کار وہ مریض زندگی کی آخری سانس کی ہچکی لیکر چل بستا ہے اور بہت سے لوگ اپنی اپنی بیماریوں سے تنگ آکر سسک سسک کر موت کا انتظارکر رہے ہیں اس کا آخر ذمہ دار کون ؛ دوسری جانب ان حالات سے طالبعلم اپنی خواہشات دل میں رکھتے ہو ئے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے جن میں کئی نوجوان بے روزگاری جیسی لعنت سے تنگ آکرخودکشی کرچکے اور کئی نوجوان سنگین جرائم میں مبتلا ہوگئے اور یوں حالا ت ا خر چلتے رہے۔ تاہم ایک وقت ایسا آیا جسے دو سال کا عرصہ ہوگیا ہے ان بگڑتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کے لئے منصوبہ بندی نیشنل ایکشن پلان ضرب عضب کے نام سے انسانیت کے دشمنوں کے خلاف کاروائی عمل میں آئی جس کے نتیجے میں قدر بہتری آئی جو یقینآ عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔

ضرب عضب منصوبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینے کے لئے ایک پختہ عزم سامنے آیا اور اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ا ور اس عزم کا اظہار ملک آرمی چیف کرچکے ہیں اس سلسلے میں عوام کو بھی ا یک پختہ عزم اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے پرمحترم پروفیسر سید اسرار بخاری نے جنگ اخبارکے سررہ گزر میں اس طرح لکھتے ہیں کہ اعتدال ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ انتہا پسندی ایک ذہنی سوچ ہے جسے انسانی معاشرے کے کسی بھی معاملے میں ردعمل کو بگاڑ کر کشید کیا جاتا ہے اس کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہاں وہاں اعتدال کے فلسفے کے ماہرین کو بھٹا دیا جائے جہاں جہاں سے افراد کو ایجوکیٹ کیا جاتا ہے جو لوگ نوجوانوں کو خود کش بناتے ہیں وہ بھی دلائل کے انبار لگا کر ایک انسان کو قائل کرتے ہیں ورنہ کوئی زندہ انسان اپنی جان جیسی عزیز متاع کو بارود کی نذر نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ نظریاتی مرض پہلے انسانی دماغ میں پیدا ہوتا ہے پھر عملی شکل اختیار کرتا ہے انتہا پسندی کو اعتدال پسندی کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کیا جاسکتا ہے انہوںنے ایک درخت کی مثال دیتے ہوئے لکھا کہ اگر کوئی درخت زہریلا پھل دے تو ایسے درخت کو جڑ سے اکھاڑ دینا ہوگا اس درخت کے پھلوں کو تلف کرکے زہرناگی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے تجویز دی کہ ایک بورڈ بھٹایا جائے جو تمام مذہبی کتب سے زہریلے فرقہ وارانہ مواد کو ختم کردے مارکیٹ میں انتہا پسندی اور فرقہ وارایت پر کتابوں کی فروخت جاری ہیں پڑھ کر ہر شخص کی سوچ میںخطرناک تبدیلی پیدا ہوتی اور اس طرح دہشت گردی کو فرغ ملتا ہے ایک وجہ غربت بے روزگاری بھی ہے اس کو کوئی بھی دولت کی جھلک دکھاکر اس کا ضمیر خریدا جاسکتا ہے حکومت شوشل میڈیا علماء دین سماجی بہبود کی تنظیمیں اور عوام مل کر ایسے مراکز قائم کریں جہاں جہاں انتہا پسندی کے رجحان کی حوصلہ شکنی اس انداز میں کی جائے کہ خود کش حملوں اور دہشت گردی کو جہاد سمجھنے کے خلاف عملی اخلاقی اور شواہد پر مبنی لیٹریچر رکھا جائے اور انتہا پسندی کے موضوع پر سوال وجواب کا اہتمام کیا جائے دہشت گردی ایک سوچ کی پیداوار ہے اور اس سوچ کا خاتمہ کیا جائے۔ حکومت کو میری بھی ایک تجویز ہے کہ (پاکستان نیشنل سینٹر) کو پھر سے بحال کیا جائے ۔ لہذا تاریخ میں رقم کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ آج ہم کل اور کوئی لیکن اس سے قبل یعنی ہر شخص یہ سوچ رکھے کہ فتنہ فساد قتل غا رتگری میرے دور میں ہی دفن ہو بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردو۔

Aslam Anjum Qureshi

Aslam Anjum Qureshi

تحریر : اسلم انجم قریشی