تحریر: شاہ بانو میر
ساتویں آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے کس حد کو چھونا چاہتی تھی ؟ کافرانہ سوچ کی حامل ایک ایسی ماڈل کو ان دنوں پڑھا سنا اور پرکھا٬ پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی عورت کا شہرت کے آخری کنارے تک پہنچ جانا ایان علی کی گرفتاری کے بعد ایک جواب طلب سوال پیدا ہو چکا ہے٬۔
کیا پاکستان جیسے ملک میں جہاں مافیا کا راج ہے٬ وہاں کسی خاتون کی متعلقہ شعبے کے ساتھ مربوط کارکردگی ہی اسے اتنی بلندی پے پہنچا دیتی ہے؟ بہت کچھ پانے کیلیۓ بہت کچھ کھونا پڑتا ہے٬ یہ ایک بہترین ٹاپ کلاس انڈین ہیروئین کا مشہور مقولہ ہے٬ پاکستان کے ہر شعبے میں کسی بھی خاتون کا سر فہرست ہونا اتنا آسان نہیں ٬ باقاعدہ لابنگ کی جاتی ہے٬ پیسے کا وافر استعمال کسی بھی وجود کی ناکامی کو رنگ روغن کر کے خوبصورت جھوٹ کو فریبِ نظر سے سچا خواب بنا کر کامیابی دلوائی جاتی ہے٬ جیسے اہل شعور کو چِڑا کر سنایا جا رہا ہو کہ جو کر سکتے ہو کر لو ٬ ہم ہیں نئے معاشرے نئی روایات کے علمبردار ہم جسے چاہیں بغیر محنت کے جہاں چاہیں پہنچا دیں٬۔
ایسے حادثات سے ہمارے اداروں کی تاریخ بھری پڑی ہے٬ جو عرصہ بعد کسی متعلقہ شعبے کے کسی بندے کے ضمیر جاگنے پر سامنے آتی ہیں٬ پاکستان کی سابقہ فلمسٹارز کو سوچا تو پڑھنے پر راز عیاں ہوا کہ ان کی راتوں رات ملی شہرت کے پیچھے آخر کار کوئی سیساستدان سرمایہ دار جاگیر دار وڈیرہ رئیس زادہ چوہدری تھا٬ اس دور کی دوسری کئی ناکام ہیروئین ایڑہی چوٹی کا زور لگا کر بھی کیوں ناکام متصور ہوتی تھیں ٬ اور بظاہر سانولی سلونی واجبی نقوش کی حامل لڑکی کیسے سپر سٹار بن کر سب کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے٬ وجہ اس کی پشت پر وہ طاقتور کردار جو پیسے سے ہر محاذ پر دوسروں کو گرا کر اس کیلیۓ عارضی جھوٹی کامیابی کا ایک نیا زینہ طے کروا کر اوپر لے جاتا ٬ مگر جب ان لوگوں کے نام منظر عام آتے ہیں تب وہ دور گزر چکا ہوتا ہے٬ اور بہت سا پانی پُلوں کے نیچے بہہ چکا ہوتا تھا ٬ دوسری طرف اگر ہم ماضی کی ہیروئینوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ کیلیۓ ایسے شکاریوں نے کیا کیا؟ سب سے پہلے تو میڈیا کو خریدا جاتا ہے٬ ہیروئین سے منسلک کئی قسم کی رعایتیں بتا کر ان کو اس کیلیۓ مخصوص کیا جاتا ہے٬ پیسے کا بے دریغ استعمال پاکستان جیسے ضرورتمند ملک میں ہر ہیرو کو زیرو اور ہر زیرو کو ہیرو بنا دیتا ہے٬ یہ میرا شعبہ نہی شائد آرٹیکل باوزن نہ لگے لیکن کئی روز قبل ایک خبر نے یہ لکھنے پر مجبور کیا٬۔
کئی روز پہلے ایان علی نامی ایک سپر ماڈل 5 لاکھ ڈالرز جیسی کثیر رقم کے ساتھ ائیر پورٹ سے اس وقت گرفتار ہوئی جب وہ کسی سیاسی اہم شخصیت کے ساتھ دوبٔئی جا رہی تھی٬ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ وہ اس سے پہلے کروڑوں ڈالر ایسے ہی دوبئی وزٹ پر ہمراہ لے جاتی ہے٬ جیل میں اس کا قیام طعام ویسا ہی ہے جیسے کسی بڑے دولتمند کے تعلق والے کا ہونا چاہیے ٬ جوس فروٹس اور کانٹی نینٹل فوڈ (سنی سنائی اطلاعات ہیں تصدیق شدہ نہیں ) ہائیکورٹ نے آج سپر ماڈل ایان علی کی درخواستِ ضمانت مسترد کر دی٬۔
لگتا ہے اب ان وڈیروں سرمایہ داروں جاگیر داروں تاجروں سیاستدانوں کے قائم کردہ اس عارضی نظام کی موت کا وقت آچکا ہے٬ اس ماڈل کی کارکردگی وہی ہے جو ہر ناکام جسم کی ہوتی ہے ٬ لیکن یہ ٹاپ پر آئی کیسے ؟ وہی گھسی پِٹی کہانی عام سی رہائش گاہ میں رہنے والی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی شہرت دولت کے حصول کیلیۓ اندھا دھند بھاگی اور میدان میں موجود شاطر کھلاڑی اسی تاک میں نگاہیں جمائے بیٹھے ہوتے کہ کب مطلوبہ شکار ہتھے چڑھے اور اس پر رقم لگا کر ایسی مصنوعی کامیابی کی دوڑ میں صف اول قرار دلوا دیں کہ کامیابی اپنی اس ناکامی پر تِلملائے جھنجھلائے اور تڑپے کہ اس کو کس بےدردی کے ساتھ استعمال کر کے اس کی تذلیل کی گئی ہے٬ یہی کچھ یہاں ہوا ٬ عام سے ملبوسات استعمال کرنے والی عام سی رہائش گاہ رکھنےوالی کچھ ہی عرصے میں کسی نادیدہ ہستی کی مدد سے ماڈلز کی ٹاپ لسٹ میں آکر اسی ڈرامے کو نئے انداز میں دہرانے لگی جو اس فیلڈ کا خاصہ ہے٬۔
دبئی جیسے مہنگے ملک میں اس کے سال میں کئی کئی چکر اور پھر شاپنگ ٬ ملبوسات کے انداز کی تبدیلی ٬ گفتگو میں آتی بے باکی لہجے کی بناوٹ شاندار گاڑیوں میں سفر ٬ اعلیٰ ہوٹلز میں قیام طعام ٬ چہرے پے موجود کرپشن بازاری انداز بتا رہا کہ وہ کس قماش سے ہے٬ میڈیا کو متاثر کر رہے تھے ٬ اس کی ڈیمانڈ میں ہوتا مسلسل اضافہ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو ملنے والے چیک کی رقوم میں زیرو کے ہندسے کا بڑہنا سیانوں کو بتا رہا تھا کہ بہت مضبوط کھلاڑیوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنی کھیل رہی ہے٬۔
اور پھر ساری شہرت سارا مقام اس وقت زمین بوس ہوگیا جب ائیرپورٹ سے رقم سمیت کنٹرول کیا گیا٬ اور کئی سرگوشیاں سنی گئیں کہ اس نے غالبا نکاح کیا ہے کسی بڑے سیاستدان کے کسی رشتے دار سے ٬ لیکن ایسے نکاح بھی ان کی کارکردگی کی طرح ہوائی ہوتے ہیں٬ اس لئے حلیے کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ پنپ نہیں رہی٬ لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ بڑی بڑی کاروباری سماجی سیاسی شخصیات کو اس کے ساتھ منسلک شخصیت کی جانب سے جو لنچ ڈنرز دیے ہو جاتے تھے یہ ان میں مستقل موجود تھی٬۔
ایسے رشتے کاروباری سیاسی سماجی فوائد حاصل کرنے کیلیۓ ہی بنتے٬ لیکن جیل میں قیام کے دوران سیاسی اہم شخصیات کا رابطہ معنی خیز ہے پاکستان کی عدلیہ کا نظام تبدیل ہو رہا ہے ورنہ ماضی میں ایسے کیسسز کو کچھ لے دے کے بڑی خاموشی سے بوجھل فائلوں کے ڈھیر میں دبا کر گم کر دیا جاتا تھا٬ اور چند ایک شور مچانے والوں کو ہمیشہ کی طرح لفافے پہنچا کر ایسے واقعات کو قصہ پارینہ بنا دیا جاتا تھا٬ لیکن آج ایان علی برقعہ میں ملبوس نقاب اٹھا اٹھا کر شائد تازہ ہوا کو آزاد فضا میں محسوس کر رہی تھی٬ عام زندگی میں شتر بے مہار پھرنے والی یہ حسینہ آج شدید مایوسی کا شکار ہوئی ہوگی۔
ویسے ہی جیسے ان کی وجہ سے کئی با صلاحیت لڑکیاں ان کے روابط سے حاصل ہونےوالی جھوٹی کامیابی سے مایوس ہو کر کہیں خاموش ہو کر گم ہو گئیں ٬ ایسی لڑکیوں کیلیۓ حوصلہ افزاء بات ہے کہ اب اس قسم کی کامیابیاں پاکستان میں روبہ زوال ہو نا شروع ہو چکیں٬ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر قانون کی گرفت اب ثابت کر رہی ہے ٬ کہ اس ملک میں اب حقیقی معنوں میں تبدیلی کی ہوا چل نکلی ہے٬ خُدا کرے کہ یہ کیس ایسا فیصلہ کُن ثابت ہو کہ مصنوعی نمائش کا سہارا لے کر سستے سودے کر کے چارہ بننے والی ہستیاں اپنے انجام کو پہنچیں تو پیچھے کسی بھی ادارے میں کھڑی کارکردگی کی حامل دوسری ہستیوں کی صلاحیتوں کو زنگ لگنے سے بچایا جا سکے٬ ایان علی جیسی دیگر لڑکیاں پاکستان جیسے ملک میں شارٹ کٹ کھیلنے کے چکر میں نجانے کسی کو بیوقوف بنا کر کامیابی کے ساتویں آسمان پر پہنچنا چاہتی ہیں یا کوئی ان کو بیوقوف بنا کر اپنے اہداف حاصل کر لیتا ہے؟ یہ چارہ بن کر کٹھ پتلی کا کردار ادا کر کے معاشرتی برائیوں کے پھیلاؤ کا باعث بنتی ہیں یا کوئی انہیں خود چارہ سمجھ کر انہیں نشانِ عبرت بنا دیتا ہے؟
تحریر: شاہ بانو میر