لاہور (ویب ڈیسک) (ن) لیگ میری پرانی جماعت ہے۔ جو کچھ تھوڑی بہت سیاست کی اسی کے حوالے سے کی۔ اس کے ٹکٹ پہ ایم پی اے بھی رہا اور ایم این اے بھی۔ اس لئے اس پارٹی کے مزاج کے بارے میں کچھ جانتا ہوں۔نون لیگ اقتدار کی جماعت ہے۔ اپوزیشن میں اِس کا رنگ پھیکا نامور کالم نگار ایاز امیر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ پڑ جاتا ہے۔ اِس کے لیڈران کے چہرے مرجھا جاتے ہیں۔ اقتدار کی باگیں ہلانا یہ جماعت خوب جانتی ہے۔ لیکن کسی قسم کی مزاحمت اس کا کام نہیں۔ بیشتر اس کے لیڈران یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں۔ مریم نواز کو یہ بات سمجھنے میں دِقت ہو رہی ہے۔ اُن کا اپنے والد کیلئے فکر مند ہونا قدرتی امر ہے۔ اُنہیں اس بات کی داد ملنی چاہیے کہ صرف فکر مند ہی نہیں بلکہ اُن کے ساتھ جو رہا ہے اس کیلئے باقاعدہ تڑپ رہی ہیں۔ لیکن تڑپنا اورچیز ہے اورکارگر سیاسی حکمت عملی اپنانا مختلف چیز ہے۔ حتی الوسع وہ ہاتھ پیر ماررہی ہیں لیکن بات کچھ بن نہیں رہی۔ اُنہوں نے خود کہا کہ میں والد کیلئے آخری حدتک جاؤں گی اورپھر جج ارشد ملک صاحب کے قضیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُنہو ں نے کہا کہ یہ آخری حد ہے۔ لیکن سوال اُٹھتاہے کہ آخری حد چھونے کے بعد ہوا کیا ہے۔ پریس کانفرنس ہوگئی، طوفان اُٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن بنیادی صورتحال جوں کی توں ہے۔ نوازشریف اندر ہیں اوراُن کے باہر آنے کا کوئی فوری امکان نہیں۔ بات تو تب بنتی کہ پریس کانفرنس کا دھماکہ ایسا ہوتا کہ ہر چیز لرز کے رہ جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پریس کانفرنس کی شام ہلکا سا طوفان اُٹھا لیکن جلد ہی تھم گیا۔ دوسرے دن جج صاحب کے انکاری بیان نے بہت حد تک تمام بخار کو ٹھنڈا کردیا۔ دھماکہ سخت عوامی ردعمل کی شکل میں آتا۔ عوامی حلقے بے قرار ہوتے اور کم از کم پنجاب کے دو تین بڑے شہروں میں عوامی احتجاج کا کچھ اظہار ہوتا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔جب میاں نوازشریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو بینظیر بھٹو اورآصف علی زردار ی کے گرد سخت شکنجے کسے گئے۔ احتساب کیا تھا مکمل جارحیت کا ایک نمونہ تھا۔ احتساب کے جج بھی تھے شریفوں کے خاص الخاص ہمارے پرانے مہربان ملک عبدالقیوم۔ بینظیر بھٹو کی ایک پیشی راولپنڈی میں ہوتی تو دوسری صبح اُنہیں لاہور پہنچنا پڑتا۔ اگلی صبح پیشی کراچی میں ہوتی۔ ایک دن بینظیر بھٹو کے آنسو چھلک پڑے، ملک عبدالقیوم اُنہیں اتنا تنگ کررہے تھے۔ لیکن آسمانوں کا کیا کرنا ہوا کہ ایک روز ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پہ آگئی جس میں احتساب بیورو کے چیئرمین سیف الرحمن جنہوں نے احتساب الرحمن کا لقب پایا ملک عبدالقیوم کو کہتے سُنے گئے کہ کیسوں کی رفتار تیز ہونی چاہیے اور بڑے میاں صاحب کی یہ خواہش ہے۔ اِس ٹیپ کا سامنے آناتھا کہ یکدم اتنا شورمچا کہ سارا احتساب کا قلعہ دھڑام سے زمین بوس ہوگیا اوربینظیر بھٹو اورآصف علی زرداری کے خلاف سارے کیسز دم توڑ گئے۔ دھماکہ اِسے کہتے ہیں۔ جج ارشد ملک والے الزامات تو محض پٹاخہ ثابت ہوئے ہیں۔ ایک دن کی ہلچل اور پھر سب کچھ ویسے کا ویسا۔ آخری حد کا مطلب ہوا آخری پتہ۔ اس کے بعد میڈم مریم کون سا پتہ کھیلیں گی؟ دھمکی تو اُنہوں نے دی کہ میرے پاس اورمواد ہے۔ موجودہ روش نہ بدلی تو وہ مواد بھی سامنے آجائے گا۔ اِس دھمکی سے البتہ کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔ میاں صاحب کی مصیبتوں میںنہ کمی آئی ہے نہ آنے کا کوئی امکان ہے۔ یہی چیز تو مریم نواز کو کھائے جارہی ہے۔گزرے ہوئے کل کے شیر میاں محمد نوازشریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں اور لاہور کے حالات نارمل ہیں۔ کوئی شور نہیں کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی میاں صاحب کی رہائی کے لئے دھرنا نہیں۔ سزا سے زیادہ اُس کے ردِعمل میں کچھ نہ ہونا نوازشریف کی قریبی فیملی کی بے چینی کی اصل وجہ ہے۔ اصولوں کی جنگ ہو تو بڑی سے بڑی مصیبت سہی جاسکتی ہے۔ لیکن یہاں تو کوئی ایسی چیز نہیں۔ شریفوں کا گزرا ہوا اقتدار ہے اوراُن کی بے پناہ دولت۔ اِس کہانی میں اصول کہاں سے آئے؟ اِسی لیے ایامِ اسیری برداشت نہیں ہو رہے۔ یہ کبھی سُنا نہ تھا کہ میڈیکل بنیادوں پہ سزا معطلی کی استدعا کی جائے۔ لیکن یہ انوکھا قانونی نکتہ میاں نوازشریف اوراُن کے ہونہار وکیل خواجہ حارث نے اُٹھایا کہ قیدی کی صحت خراب ہے اسی لئے اُن کی سزا معطل ہونی چاہیے۔ یہ نکتہ مانا جائے تو پاکستان کی قانونی کتاب بدل جائے۔ ہر سزا یافتہ قیدی ایک درخواست دے کہ صحت خراب ہے‘ جیل کے حالات صحت کیلئے موافق نہیں لہٰذا سزا معطل کی جائے۔ وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے تو نوازشریف کے سامنے یہ آپشن تھا کہ وہ حالات سے لڑیں اورطاقت کے مختلف مراکز کو چیلنج کریں۔ اُنہوں نے یہی راستہ اپنایا اوراسی لیے لاہور پہنچنے کیلئے جی ٹی روڈ کاانتخاب کیا۔ توقع یہ تھی کہ عوامی طاقت کا ایسا مظاہرہ ہوگا کہ حکومت حالات کو کنٹرول نہیں کرسکے گی۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اورداتا دربار کے سامنے میاں نوازشریف یہ کہتے رہ گئے ”مجھے کیوں نکالا؟‘‘۔ اس آخری منظر کے بعد حالات ٹھنڈے ہوتے گئے حتیٰ کہ نون لیگ کے مزاحمتی کیمپ میں بھی یہ خیال اُبھرا کہ مزاحمت کی کوشش سے کچھ حاصل نہیں ہوا اوراب بہتر ہے کہ چپ ہی رہا جائے۔ چپ بھی پھر ایسے سادھی گئی کہ جاتی امرا سے کافی عرصہ تک معمولی آواز بھی نہ آئی۔ اس چپ کی سیاست کو مریم نوازنے اب بدلنے کی کوشش کی ہے لیکن نتیجہ جو برآمد ہورہاہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جج ارشد ملک صاحب والی پریس کانفرنس میں ایک مرحلے پر مریم نواز نے ذوالفقار علی بھٹو کا حوالہ دیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی سزائے موت کو جوڈیشل قتل کہا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کی سزا کو بھی اِنہی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ بھٹو کا تو حوالہ دیا لیکن جنرل ضیاء الحق کو بیچ میں وہ بھول گئیں۔ بھٹو کو پھانسی دینے والا ضیاء الحق تھا اور ضیاء الحق کے وفادار ساتھی اور جانشین مریم نواز کے والد گرامی تھے۔ بھٹو کے ساتھ جو ظلم یا ناانصافی ہوئی اس کو تو اُنہوں نے یاد کیا لیکن ظلم روا رکھنے والوں کو بھول گئیں۔ سیاست میں بہرحال ایسا ہوتا ہے۔ چبھنے والی یادیں یاد نہیں رکھی جاتیں۔ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی ہمدرد شریف فیملی ہے۔ رحم تو اس قوم کی قسمت پہ آنا چاہیے کہ کیسے کیسے ہیرو اس کو ملے۔ پہلے کم از کم جب گھوڑوں پہ شاہسوار آتے تھے تو جمہوریت اور آزادی کی شمعیں جلائی جاتی تھیں۔ پاکستانی تاریخ میں تمام یادگار شاعری انہی شاہسواروں کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے لکھی گئی۔ لیکن اب تو الٹ ہی ہوگیاہے۔ جمہوریت کا حشر شاہسواروں نے اتنا نہیں کیا جتنا کہ جمہوریت نوازوں نے۔ جمہوری دور کے کارنامے ایسے رہے کہ پرانے وقتوں کی جمہوری کہانی لکھی ہی نہ جا سکی۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے وہ تو لگتاہے مکمل طورپہ ختم ہوچکی۔ پرانے ادوار کی نظمیں اور اشعار‘ اُنہی پہ ہم گزارا کر رہے ہیں‘ نہیں تو آج کے دور میں ایک ڈھنگ کا شعر بھی کسی سے نہیں کہا گیا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ ان دونوں نے مل کے ایک رومانوی ملک سے جمہوریت کے رومانس کو مہلک نقصان پہنچایا۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ اقتدار گیا لیکن مرسیڈیز کاریں بدستور دبائی گئی ہوں۔ ایسے کاموں کیلئے دل گردہ چاہیے ہوتا ہے۔ ایک مرسیڈیز جاتی امرا سے برآمد ہوئی اوردوسری خاقان عباسی کو دینی پڑی۔ فارن آفس کے کسی آدمی سے پوچھ لیں کہ سارک سربراہ اجلاس کا بہانہ بنا کے ایک پوری کھیپ بلٹ پروف مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی امپورٹ کی گئی۔ شواہد بتا رہے تھے کہ شاید سربراہ اجلاس نہ ہو سکے لیکن پرائم منسٹرہاؤس کی طرف سے مسلسل دباؤ آتارہا کہ ان گاڑیوں کو امپورٹ کرناہے۔ حسب اندازہ سربراہ اجلاس نہ ہوا لیکن گاڑیاں آگئیں اورآتے ہی شریف خاندان کے ذاتی مصرف میں چلی گئیں۔ کچھ دن پہلے ان گاڑیوں کے بارے میں پوچھنے کیلئے ایک نیب ٹیم کوٹ لکھپت جیل گئی۔ نوازشریف نے کہا مجھے کچھ پتہ نہیں متعلقہ حکام سے پوچھیے۔ شہباز شریف بھی اپنی پوچھ گچھوں میں یہی کہتے ہیں کہ میں کیا جانوں‘ متعلقہ آدمیوں سے پوچھیں۔مریم نواز کہتی ہیں‘ میں والد گرامی کو مصر کا سابقہ و مرحوم صدر محمد مرسی نہیں بننے دوں گی۔ وہ شکر کریں یہ پاکستان ہے مصر نہیں۔ آج کے مصر میں شریفوں کے ہتھکنڈے ایک لمحہ بھی برداشت نہ کیے جائیں۔