تحریر: علی عمران شاہین
ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پڑے ننھے عیلان کردی کے جسد خاکی نے ساری دنیا کو رلا دیا، برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی رو پڑے۔ تصویر دیکھ کر 2 لاکھ شامیوں کو یورپ میں پناہ دینے کا فیصلہ ہو گیا… ہنگری نے شامی مہاجرین کے لئے بند راستہ کھول دیا۔ پوپ نے یورپ سے دو لاکھ شامی مہاجرین کی مدد کی اپیل کر دی۔
کینیڈا نے عیلان کردی کے والد عبداللہ کردی کو اپنے ہاں پناہ دینے کی پیشکش کر دی۔ عیلان کی لاش نے ساری دنیا کو رلا دیا یہ خبریں اور تبصرے کتنے دنوں سے دنیا دیکھ سن اور پڑھ رہی ہے کیسی حیران کن بات ہے کہ عیلان کی یوں موت سے جو لوگ دم بخود نظر آ رہے ہیں، کیا انہوں نے اپنی زندگیوں میں پہلا بچہ یوں مرتا دیکھا ہے…؟ عیلان کردی واحد بچہ ہے جو زیادہ نہ سہی، دور حاضر میں یوں موت کے منہ میں چلا گیا کہ سارے عالم کے سکتے میں مبتلا ہونے کی خبریں ہم سن رہے ہیں؟
عیلان کردی کون ہے…؟ اس مظلوم شامی قوم کا ایک بچہ جس کا سارا ملک اپنے ہی حکمران کے کرسی سے چمٹے رہنے کی حسرت و آرزو میں کھنڈر بن چکا ہے۔ بشار الاسد… دور حاضر کا فرعون بلکہ آج کے دور میں بچوں کو ذبح کرنے والے فرعون سے کہیں زیادہ سفاک اور ظالم… کیا دنیا میں کوئی ایسا ظالم درندہ ہو سکتا ہے کہ جو صرف اپنے آپ کو اقتدار کی مسند پر بٹھائے رکھنے کی آرزو میں اپنے ہی سارے ملک کو خاک و خون میں تڑپا کر پیوند خاک کر دے… شام کے ملک سے اس کی دو تہائی کے قریب آبادی بے خانماں ہو کر اڑوس پڑوس اور دنیا کے کئی ملکوں میں دھکے کھاتی پھر رہی ہے۔
ملک کے بڑے شہر ہی نہیں، چھوٹے چھوٹے قصبے اور گائوں بھی کھنڈروں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور عیلان کردی کی موت پر ماتم بپا کئے نظر وہی یورپ۔ امریکہ اور ان کے قبیل کے ممالک بشار الاسد کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ فرعون زمانہ کے ہاتھ مضبوط کر کے اور سب مل کر ایک مضبوط ملک کو مکمل تباہ کر چکے ہیں۔ ان سب کی جانب سے بشار الاسد کو ہر طرح کے تباہ کن ہتھیار اور سامان خونریزی مہیا کیا جا رہا ہے۔
گھروں، بازاروں، ہسپتالوں، سکولوں اور آبادیوں پر بیرل بموں کی بارش سے ہزاروں عیلان کردی ٹکڑوں میں تبدیل ہو کر پیوند خاک ہو چکے ہیں۔ کیمیائی اورحیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال سے شام کے ہی ہزاروں عیلان کردی تڑپ تڑپ کر عدم کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ سارے عالم نے وہ تصاویر اور ویڈیوز دیکھیں جن میں بے شمار ننھے منے ”عیلان کردی” تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے ہیں تو اس دوران ان کے جسم نیلے پڑ رہے ہیں، منہ سے جھاگ اور خون نکل رہا ہے، ان کے پیارے ان پر پانی ڈال کر ان کی گنتی کی سانسیں بڑھانے کیلئے تڑپ رہے ہیں لیکن کسی کو ان کی یہ حالت نہ تڑپاتی ہے، نہ رلاتی ہے۔ ہزاروں شامی مائیں اپنے اپنے عیلان اپنی گودوں میں چھپائے، سینے سے چمٹائے غاروں میں چھپی بیٹھی ہیں۔ نجانے ان غاروں پر انہیں کھانا پینا کہاں سے ملتا ہو گا، وہ اٹھتے بیٹھتے سوتے کہاں ہوں گے…؟۔
کتنے عیلان اپنے والدین کے کندھوں پر سوار، والدین کی بانہوں میں زندگی کو ترستے، اپنی جانیں بچانے کیلئے کتنے سال سے کیسے چیختے چلاتے نظر آ رہے ہیں لیکن… کسی دل کا پسیجتا نہیں… کسی کو ترس نہیں آتا… کسی کے آرام میں خلل نہیں پڑتا، محسوس تو ایسے ہوتا ہے کہ سبھی تماش بینوں کی کوشش اور آرزو یہی ہے کہ یہ خونیں تماشا یونہی جاری رہے تو ان کے روز و شب کی محفلوں میں سرخ رنگ سے رنگینی قائم رہے گی۔ اہل شام کی ایک پوری نسل خطرے سے دوچار ہے۔ 5لاکھ سے زائد قبروں میں اتر چکے ہیں۔ انہی شامیوں کے نواح میں ایک علاقہ فلسطین اور اس کا ایک ٹکڑا غزہ اور مغربی کنارہ بھی ہے۔ عیلان کردی کا ماتم کرنے والوں نے کیا 31 جولائی کی رات کا منظر نہیں دیکھا سنا کہ جب اسرائیل کے یہودی درندوں نے ایک گھر کو آگ لگا دی تو ڈیڑھ سالہ علی سعد اپنے ماں باپ سمیت زندہ جل کر اس جہاں سے رخصت ہو گیا۔
3 سالہ عیلان کا تو چہرہ بھی دنیا نے دیکھ لیا۔ اس کا تو جسم بھی مکمل و سالم حالت میں اس کے والد کو سپرد خاک کرنے کو مل گیا لیکن علی سعد کے تو جسم کو بھی کسی کو نہ دکھایا جا سکا۔ زندہ جلے علی سعد کے بچھے کھچے سوختہ جسم کفن، رومال اور پرچم میں لپیٹ کرسپرد خاک کیا گیا۔ عیلان کا تو باپ اب دنیا میں ہیرو قرار پا چکا ہے لیکن سعد علی کے والد خستہ و تباہ حال ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے بالآخر موت کے سامنے ہار گئے تو سوا ماہ بعد اس کی ماں بھی تڑپتے تڑپتے اس کے پاس پہنچ گئی۔ اس پر تو کوئی ایسے نہیں تڑپا بلکہ جنہوں نے یوں سعد علی کو جلایا تھا، انہیں تین ماہ کیلئے گھر میں نظربند کرنے کی سزا دے کر انصاف کا بول بالا کر دیا گیا۔
غزہ میں کتنے تڑپ تڑپ کر موت کے منہ میں جاتے ہیں تو کتنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جیتے ہیں لیکن کسی کو دکھ نہیں، تکلیف نہیں… یہ کیسے تماش بین ہیں کہ انہیں تماشے میں سے منظر بھی اپنی مرضی کا تخلیق کردہ پسند آتا ہے تو پھر وہ تماشے میں شریک نہ ہونے والوں کو بھی یہی حکم دیتے ہیں کہ ان کی مرضی کے مطابق ان کا پسندیدہ منظر پسند کرو… دنیا میں کون سا خطہ ہے جہاں مسلمانوں کے لاکھوں عیلان سمندری لہروں سے نہیں ٹکرا رہے لیکن سب کی صدائیں اور خون کے داغ صدا بہ صحرا ہیں، کیسا طرفہ تماشا ہے کہ سالہا سال سے ایک کروڑ کے لگ بھگ شامیوں کو مدد و تعاون مہیا کرنے والے ترک اور عرب دنیا کے مسلمانوں کو بیک جنبش قلم مجرم بنا دیا گیا۔
وہی عرب جو کتنے ملین فلسطینیوں کو پناہ دیتے دن رات ان کی خدمت میں لگے ہیں۔ وہی اہل شام کی بھی مدد کر رہے ہیں لیکن وہی مجرم بن چکے ہیں۔ یہ آگ سلگانے اور جلانے والے دو لاکھ کوپناہ دینے کی بات کر کے چمپئن بن بیٹھے۔ نجانے ان دو لاکھ پر بھی ان کے ملکوں میں کیا بیتے گی؟ کتنی عفت مآب مسلم خواتین کی عصمتیں پامال ہوں گی۔ کتنوں کے بچے نیلام ہوں گے… یہ تو صرف فرعونوں کی تاریخ ہے جو بدل نہیں سکتی کہ یہ خود ہی قتل کرتے ہیں پھر خود ہی مدعی بن جاتے ہیں۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ
0321-4646375