تحریر: شاہد شکیل
دنیا میں سوائے قدرتی طور پیدا ہونے والی انمول اور نایاب اشیاء کے علاوہ سائنسدانوں نے بہت کچھ دریافت اور ایجاد کیا ہے کئی بار ناکامی کی صورت میں پروجیکٹ کو جزوی یا مکمل طور پر بند بھی کرنا پڑا اور کئی بار چند برسوں بعد کسی دوسرے سائنسدان نے دوبارہ ری اوپن کیا، انسان اگر ہار مان لے تو کبھی ترقی نہیں کر سکتا جستجو جاری رکھنے سے ہی مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سائنس دان ہر لمحے اسی کھوج میں رہتے ہیں کہ نئی چیز کیسے دریافت کی جائے جس سے انسانوں کو فائدہ ہوکیونکہ اگر ایک سائنسدان کسی نئی شے کے بارے میں سوچتا ہے تو برسوں اسی کوشش میں رہتا ہے کہ پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے بعد ہی دم لے گا ،سائنس اور جدید ٹیکنالوجی نے دنیا کو ان گنت ایجادات سے نوازہ ہے اور ہر لمحے دنیا کو نئی دریافت اور ایجادات کا انتظار بھی رہتا ہے مثلاً گزشتہ دنوں محقیقین نے پہلی بار تفصیل سے مشاہدہ کرنے کے بعدچودہ دن کے انسانی جینن یعنی ایمبریو کو چودہ دن کے لئے ہائی ٹیک لیبارٹریز میں ایک خاص باکس میں منتقل کیا ہے تاکہ اسے پروان چڑھتا ہوئے دیکھا جائے۔
ابتدائی تحقیقات میں ماہرین کا کہنا ہے ہمارا مقصد اسقاط حمل کی بہتر طریقے سے ریسرچ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی مختلف راہیں ہموار کرنا ،ایمبریو کی حرکات و سکنات اور زچگی کے عوامل کو مکمل طور پر آزادانہ طریقے سے جائزہ لینے کیلئے انتہائی کٹھن طریقے سے ریسرچ کی جارہی ہے یہ ٹیسٹ محض ٹیسٹ نہیں ہے کیونکہ اکثر حاملہ خواتین ابتدا میں ایمبریو پر توجہ نہیں دیتیں اور ایک ننھی سی جان مادر رحم میں ختم ہو جاتی ہے اس ٹیسٹ میں چودہ دن کے ایمبریوکو مادررحم سے بذریعہ آپریشن نکالا جائے گا اور مخصوص لیبارٹریز میں مصنوعی غذا سے پرورش کی جائے گی تاکہ نتائج حاصل کئے جائیں کہ کیا ایمبریو ماں کے پیٹ سے اخراج کے بعد بھی پروان چڑھ سکتا ہے اور صحت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں،بنیادی مفروضے کے تحت ایک دلچسپ لیکن فلسفیانہ نقطہ نظر سے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں کہ چودہ دن کا ایمبریو دنیا میں آنے کے بعد کیااپنے قدرتی وسائل اور صلاحیت ساتھ لاسکتا ہے یا میڈیسن کے سہارے توانائی بحال کی جائے گی مثلاً مخصوص انسٹرومنٹس کو منسلک کرنے سے زندہ رکھا جائے گاعلاوہ ازیں ہمارا مقصد یہ بھی ہے کہ ابارشن کی روک تھام کی جائے۔
جرمنی کی فیڈرل کونسل اور مرکزی اخلاقیات کمیٹی کے چئیر مین ڈیٹر بیرن باخر کا کہنا ہے ایسے تجربات اس سے قبل ناممکن تھے کہ ایمبریو کو مادر رحم سے بے دخل کرکے ٹیسٹ کیا جائے لیکن جدید سائنس کی ترقی نے ثابت کر دیا ہے سب کچھ ممکن ہے۔امریکی محقیقین اِن سو ہائی یون،ایمی وِلکرسن،اور جوزفین جونسٹن اب تک دنیا کے کئی ممالک میں سائنس اور میڈیسن پر پریکٹس کر چکے ہیں اب ایک نیا تجربہ یعنی چودہ دن کا ایمبریو اور چودہ دن کی تحقیق پر جانچ کی جائے گی کہ بچہ ماں کے پیٹ کی بجائے دنیا میں پروان چڑھے،اس پروجیکٹ کیلئے ایک خاص لیبارٹری اور ہائی ٹیک انسٹرومنٹس کا اہتمام کیا گیا ہے جو مکمل طور پر ایمبریو کو تحفظ دیں گے۔
ایسے تجربات نہ صرف امریکا بلکہ آسٹریلیا اور کینیڈا میں بھی کئے جائیں گے جبکہ دوسری طرف یورپی ممالک ڈین مارک،سویڈن اور برطانیہ میں بھی محقیقین نے دلچسپی ظاہر کی ہے اور کئی ممالک میں ان تجربات کو قانونی شکل دینے کے بعد قبول کیا گیا اور سائنسی عمل قرار دیا ہے جبکہ جرمنی میں ایسے تجربات ممنوع قرار دئے گئے ہیں جرمن ماہرین کا کہنا ہے ہم جینن پروٹیکشن ایکٹ کے تحت کوئی ایسا تجربہ نہیں کریں گے جس سے انسانی ذہن،جسم ،اخلاق اور دیگر معالات میں مشکلات پیش آئیں ،ایمبریو کی پیدائش اور پروان کا اصل مقام ماں کا پیٹ ہے، ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی قدر کرتے ہیں اور کسی قسم کی نئی دریافت یا ایجاد کے خلاف نہیں ہیں۔
لیکن قدرتی عوامل میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔یہ تھے جرمن ماہرین کے تاثرات جو درست ہیں کیونکہ انسان کے بچے کوئی چوہے یا بندر کے بچے نہیں کہ جن پر جب جی چاہا تجربات شروع کر دئے جائیں ،لیکن سائنسدانوں کو کسی بھی نئی ایجاد کیلئے کبھی مصنوعی تو کبھی کسی جاندار کی ضرورت پیش آتی ہے کیونکہ اگر انہوں نے انسانوں پر تجربہ کرنا ہے تو ظاہر بات ہے انسان پر ہی تجربہ کریں وہ زندہ ہو یا مردہ بچہ ہو یا عمر رسیدہ انہیں کوئی غرض نہیں ،دنیا بھر میں ہر وقت کوئی نہ کوئی سائنسدان نئی دریافت یا تخلیق کے بعد متعارف کرواتے ہیں مثلاً گزشتہ دنوں چین نے ہائی ٹیک ٹننل ٹرین متعارف کروائی ہے جس سے انسان مستفید ہونگے۔
جرمنی ،فرانس اور دیگر یورپی ممالک آئے دن نئی تحقیق کرنے کے بعد دنیا بھر میں اپنی مصنوعات متعارف کرواتے ہیں اور دنیا کے کئی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود انہیں بے دردی سے ضائع کرتے ہیں قدرتی وسائل انمول خزانہ ہیں اور قدر کرنے کے علاوہ انکی حفاظت اور مزید ترقی کیلئے استعمال کئے جانا چاہئیں لیکن افسوس کہ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک اسی لئے ترقی نہیں کر سکتے کہ وہ جب ایک انسان کی قدر نہیں کر سکتے تو کسی سائنسدان کی ایجاد یا دریافت کی کیا قدر کریں گے۔
تحریر: شاہد شکیل