تحریر : شیراز خان لندن
میرا پہلا کالم پڑھ کر میرے ایک محترم مذہبی دوست نے پیغام بیجھا لوگوں کے عیبوں سے اس طرح غافل ہوجاو جیسے سوتے وقت تم دنیا سے گافل ہوجاتے ہو میرا استدلال تھا حضور لوگوں کے عیب اگر ذاتی ہوں اور معاملہ ان کا اور اللہ کے مابین ہو تب تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں لیکن جب معاملہ ملک اور قوم کے نفع یا نقصان کا ہو تو پھر کس طرح لوگوں کو مطلع نہ کیا جائے کہ اللہ نے انسان کو دوسرے انسان کو نفع ہی پہنچانے کے لیے پیدا کیا ہے کہ صدائے حق وسیع کو سننے ، سہنے اور سراہنے والے ابھی تک موجود ہیں ۔ گذشتہ پہلی قسط میں آخری پیرا گراف میں لکھا تھا کہ اگر وفاقی حکومت قائیم ہونے کی پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔
ابتدا، 18 رکنی کمیٹی سے ہوئی جس پر انتشار باہم پارٹی کے اندر سے ہوا چونکہ یہ مینڈیٹ تو دوسرا جھگڑا الیکشن میں امیدواروں کی حتمی فہرست پر ہوگا جو کہ برادری اور سفارش کا عمل دخل بھی ہوگا چونکہ برادری اور سفارش کا عمل دخل بھی ہوگا برجبیں طاہر کے اپنے اسرار سکندر حیات کی لاکھ کوششوں کے بعد انہیں میاں نواز شریف نے ملاقات کا وقت دیا اس طرح وہ وفاقی وزیر بر جبیں طاہر سے بھی ملاقات کرچکے ہیں قابل افسوس اور قابل حیرت بات یہ ہے کہ جو شخص آزاد کشمیر کا دوبارہ وزیر اعظم اور ایک بار صدر رہ چکا ہو اور دہ چکا ہو اور کئی دہائیوں تک مسلم کانفرنس کا صدر بھی رہ چکا ہو۔
اس شخص کو وزیر اعظم پاکستان اتنا عرصہ انتظار کیا کیوں کرنا پڑا سردار سکندر حیات جی او سی فری کو منع کردیا ہے کہ مجھ سے مری کی سیڑھیاں نہیں چڑہی جاتی اور جنرل مشرف کو یہ کہ چکا ہو کہ ہم جنرل مشرف کے وظیفہ خور نہیں ان کی مشرف ہماری بات سنتے اسی لیے ہم جنرل مشرف کا ساتھ دے رہے ہیں۔
سردادر سکندر حیات کان کو اس عمر میں کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ برجبیں طاہر سے ملاقات کے لیے وقت مانگے یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ جس روز شریف دربار میں سردار مین سردار سکندر حیات خان کی ملاقات ہورہی تھی اس دن محبوبہ صنعتی وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی سے ملاقات میں مقبوضہ کشمیر کے اقتدار کے سودا طے کرہی تھی محبوبہ صنعتی تو وزیراعلی بن گئی ہے آزاد کشمیر حکومت کا قیام 1948 کو اس لئے عمل میں لایا گیا تھا جو علاقے دشمن کے قبضے میں ہیں انہیں آزاد کروایا جائے گا اور پوری ریاست جموں و کشمیر کی وحدت کو متحد کیا جائے گا اور لوگوں کو آزادی کی نعمت اور اس کے ساتھ وابستہ تمام حقوق میسر رہیں۔
لیکن یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا لائن آف کنٹرول کے اس پار کشمیری ہماری طرف دیکھتے ہیں ہم نے آزاد کشمیر کو اقتدار کا اکھاڑہ بنا رکھا ہے صرف کرسی کی خاطر نظریات، پارٹیاں اور اصول سب کچھ بھول جاتے ہیں سیاسی پارٹیاں پہلے تو موجود تھیں ریاست کی ایک مسلمہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس شکست و ریخت کا شکار ہوئی اور اس کے بطن سے آزاد مسلم کانفرنس جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک عمل وغیرہ نے جنم لیا کمزور سے کمزور حکومتیں معرض وجود میں آتی رہیں۔
لیڈروں اور حکومتوں کا کمزور پڑجاتا دراصل قوموں کے مفاد میں نہیں ہوتا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل بند ہونا چاہیے آزاد کشمیر کا یہ محدود خطہ تعلیم سے لیکر تعمیر و ترقی ہر لحاظ سے پسماندہ ہے انگلیوں سے سورج نہیں چھپتے اور کمزور حکومتوں کے قیام کی بنیاد ریاستی امور کو کمزور کرنا ہے۔ آئندہ ذکر ہو گا عمران خان کو تحریک انصاف کی تبدیلی کا کہ وہ آئندہ الیکشن میں کیا گل کھلائے گی اور مسلم کانفرنس کا مستقبل کیا ہے۔ (جاری ہے)
تحریر : شیراز خان لندن