تحریر: مسز جمشید خاکوانی
عزیر جان بلوچ نے انکشاف کیا ہے اسے جیل میں لیاری کا سربراہ بنانے کی پیش کش کی گئی تھی ۔اسے زمینوں پر قبضے ،ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم کے لیے استعمال کیا گیا عزیر بلوچ کے مطابق اس نے کراچی کے علاقوں گلستان جوہر، کلفٹن اور سرجانی ٹائون میں زمینوں پر قبضے کرائے گینگ وار کے سرغنہ نے خالد شہنشاہ ،ارشد پپو اور سٹیل مل کے سابق چیئرمین سجاد حسین شاہ سمیت متعدد قتل کیے ذرائع کے مطابق عزیر جان بلوچ کے خلاف قائم تین مقدمات کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی بنے گی عزیر جان بلوچ کے مزید انکشافات سامنے آئے ہیں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کو نیٹو کا اسلحہ فراہم کیا گیا ایک سیاسی جماعت کا اہم رہنما سرکاری گاڑیوں میں اسلحے کی ترسیل کرتا تھا اس نے اعتراف کیا کہ وہ سیاسی بنیادوں پر تقریاں و تبادلے کراتا رہا اس نے بعض کرپٹ رہنمائوں کو بیرون ملک فرار بھی کرایا تھا نیٹو کا اسلحہ کن کن کو فراہم کیا گیا اس انکشاف نے کھلبلی مچا دی ہے ۔۔۔
لیکن انصاف کی فراہمی سے مایوس اور محروم لوگ کہتے ہیں کچھ بھی نہیں ہو گا ظلم کی گنگا یونہی بہتی رہے گی اور مقتدر طبقہ اس بہتی گنگا میں نہاتا رہے گا حکم ماننے والے تو شائد دفن ہو جائیں حکم دینے والے اپنی کرسیوں پر جمے رہیں گے عزیر جان پیپلز پارٹی کا صولت مرزا ہے ۔ایک ملزم کے مجرم بننے تک کتنے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں میڈیا میں ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے اس طوفان میں دو گروہ بن جاتے ہیں ایک ملزم کے حق میں ہو جاتا ہے ایک مخالفت میں ،ایک اس کو ظالم ٹھیراتا ہے دوسرا مظلوم ایک اس کو شک کا فائدہ دیتا ہے تو دوسرا سارے الزام اسی پر ڈالتا ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملزم ہیرو بن جاتا ہے عالمگیر شہرت مفت میں مل جاتی ہے اور جو اتنی محنت اور زندگیاں دائو پر لگا کر ان مجرموں کو پکڑتے ہیں وہ سولی پہ لٹک جاتے ہیں کیونکہ وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوتے ۔اب تو یہ حال ہو گیا ہے لوگ دن دیہاڑے قتل کرتے ہیں پکڑے جائیں تو کہتے ہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اسی چیز نے ملک میں لاقانونیت کو عام کیا ہے طاقتور کٹہرے میں نہیں لائے جاتے ،قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست کے اہم امور پس پشت چلے جاتے ہیں۔
بلکہ بعض اوقات بہت اہم ایشوز کو دفن کرنے کے لیے بھی اس طرح کی گرد اڑائی جاتی ہے کیا ہم سب کو اس بات کی تسلی ہے کہ ہمارا چین کے ساتھ ایک معاشی راہداری کا منصوبہ طے ہوا تھا کیا وہ اب بھی قائم ہے یا اس شور شرابے میں دفن ہو گیا؟ میری اطلاع کے مطابق پاکستان میں ” پاک چائنا معاشی راہداری ” پر ہونے والی جمہوری پنگے بازیوں کے بعد چین کے صدر نے ایران کا اہم ترین دورہ کیا اور وہاں ”ون بلٹ ون روڈ” یا سلک روڈ منصوبے پر دوبارہ کام کرنے کا اعلان کیا دونوں ممالک نے اگلے دس سال میں باہمی تجارت کو 600ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا سلک روڈ چین سے ہوتا ہوا ترکمانستان ،ازبکستان سے ایران اور وہاں سے عراق کے راستے ترکی اور پھر یورپ تک جائے گا اگر یہ روڈ بن گیا تو دنیا کی اہم ترین گذرگاہ بن جائے گی یہ روڈ چین کی وہ ساری ضروریات پوری کرسکے گا جو ہم معاشی راہداری کے زریعے پوری کرانا چاہتے تھے وہ حیثیت جو گوادر کو ملنا تھی شائد اب ایرانی بندرگاہ کو ملے اس سارے معاملے پر پاکستانی میڈیا کی خاموشی حیرتناک ہے جمہوری لیڈران کو تو شائد علم ہی نہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے یہ سب نہایت ہی تکلیف دہ ہے جمہوریت نے کیسے پاکستان کو برباد کیا ذرا اس کے ایک اور پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔
پرویز مشرف کو ہٹائے جانے میں چار چیزوں نے اہم ترین کردار ادا کیا تھا ۔جب اس نے امریکی ناراضگی کے باوجود چین کے ساتھ مل کر گوادر پراجیکٹ کا اعلان کیا اور اس پر کام شروع کر دیا ۔جب اس نے کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیم زبردستی بنانے کا اعلان کیا اور سب سے بڑھ کر جب اس نے یہ کہا کہ سب طالبان (افغان طالبان)دہشت گرد نہیں ان سے بات ہوگی ان میں گوادر منصوبہ اور اس میں چین سے پاکستان تک راہداری کا قیام اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی قسمت بدل سکتے تھے گوادر پاک چین راہداری کی اہمیت سے تو آپ واقف ہو چکے ہیں لیکن پاک ایران پائپ لائن منصوبہ بھی بے پناہ اہمیت کا حامل تھا مشرف نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے راستے گیس انڈیا جائے گی جو انڈیا کی توانائی کی چالیس فیصد ضروریات پورا کرے گی اور پاکستان نہ صرف اس پائپ لائن کا اربوں روپے سالانہ معاوضہ وصول کرے گا بلکہ پاکستان کو انڈیا پر ایک سٹریجک برتری بھی حاصل ہو جائے گی جس کے بعد پاکستان جب چاہے گا ایک وال بند کر کے انڈیا کے چالیس فیصد چولہے ٹھنڈے کر سکے گا انڈیا ان چیزوں کو سمجھ رہا تھا اس لیے ٹال مٹول سے کام لے رہا تھا۔
تب مشرف نے اعلان کیا کہ اس پائپ لائن کی لمبائی تین ہزار کلو میٹر کر کے اس کو چین تک لے جائینگے جس پر چین کافی خوش تھا چین کو توانائی کی سخت ضرورت ہے یہ پائپ لائن نہ صرف گوادر میگا آئل سٹی کی ضروریات کو پورا کرتی بلکہ چین کی بھی کرتی ایران کو ایک مستقل خریدار مل جاتا دنیا کی دو بہت بڑی طاقتیں ایران اور چین مکمل طور پر پاکستان پر انحصار کرتیں اور سب سے بڑھکر ون بلٹ ون روڈ جو آج بنائی جارہی ہے اس کے قیام کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ اس کو پاکستان سے گذار کر ایران لے جایا جاتا انڈیا تب بھی گیس جاتی کیونکہ انڈیا نہ لے جاتا تو وہ چین سے بہت زیادہ پیچھے رہ جاتا پاکستان ان سب کا مرکز بنتا ۔لیکن مشرف کو ہٹا دیا گیا جس کے بعد پاکستان پہ مسلط مکروہ اور غلیظ جمہوریت نے ان سب چیزوں پر پانی پھیر دیا آصف زرداری نے اپنے پورے دور میں گوادر پراجیکٹ اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور معاملہ ٹھنڈا ہی رکھا جب جانے لگا تب محض سیاسی چال کے طور پیایران گیس پائپ لائن منصوبے کا اعلان کر دیا نواز شریف نے اپنی آمد سے پہلے ہی پاک ایران گیس منصوبے کو بند کرنے کا اعلان کیا۔
جس کے بعد ایران نے پاکستان سے فی دن غالباً ایک ملین ڈالر جرمانہ طلب کیا (وہ رقم پتہ نہیں کیسے ادا کی جا رہی ہے )چین اور پاک فوج کے دبائو پر معاشی راہداری منصوبہ شروع کر دیا گیا لیکن حکومت وقت نے اس حوالے سے اتنے شکوک و شبہات پیدا کر دیے کہ جس نے اس منصوبے کو متنازع کر دیا پھر اپوزیشن نے جو ردعمل دیا اس کے بعد چین کو بال آخر ایران کا دورہ کرنا پڑا ایران نے چین کو پہلے بھی اپنی بندرگاہ پیش کی تھی جس پر راحیل شریف نے چین کے دو تیزرفتار دورے کیے تھے اور معاشی راہداری پر چین کے خدشات کو دور کیا تھا اس کے علاوہ جب اس راہداری کے حوالے سے سیکورٹی ایشوز اٹھائے جانے لگے تب پاکستان کے اس سپہ سالار نے بغیر سیکورٹی کے ان راستوں پر سارا دن گھوم پھر کر دکھایا لیکن کیا یہ راحیل شریف کے کرنے کے کام ہیں ؟حکومت اور عوام کے منتخب نمائندے کہاں مرے ہوئے ہیں سنا ہے۔
یہاں لوگوں کو چھلنی کیا جا رہا ہے اور حکومت لندن میں اپنے نجی دوروں میں مصروف ہے سندھ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور وہاں کی پارلیمنٹ میں ہنسی مذاق اور ٹھٹھے بازیاں ہو رہی ہیں بیوٹی پارلر بنانے کی قرار دادیں منظور کی جاتی ہیں سنا ہے پاکستان میں ایک سینٹ بھی ہے جس کے پونی باندھنے والے چیئرمین نے کل یہ بل منظور کرایا ہے کہ نیب کے اختیارات کم کیے جائیں تاکہ معاشی دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ بذریعہ نیب نہ ہو سکے لعنت ہے ایسی جمہوریت پر جس نے قوم ملک کو نقصان کے سوا کچھ نہیں دیا اور قوم کو عزیر بلوچ اور صولت مرزا ایان علی جیسے کردار دیے ہیں جن کو پکڑے جانے کے بعد پہچاننے سے انکار کر دیا جاتا ہے جمہوریت اور سیاست کی ایسی شرمناکیا ں پاکستان کے علاوہ اور کہیں نہیں پائی جاتیں جہاں بیسیوں قتل کرنے والے بھی معصوم ٹھیرائے جاتے ہیں کیونکہ ان کی پشت پر جمہوریت کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے !
تحریر: مسز جمشید خاکوانی