15ستمبر 2050ءکی خنک شام میں بوڑھی نانی لحاف لپیٹے بیٹھی تھی کہ بچے اکٹھے ہوگئے اور نانی سے تقاضا کرنے لگے کہ آج کوئی نئی کہانی سنائو۔ بوڑھی نانی نے سرہانے پڑے لیپ ٹاپ کو آن کیا بچوں کو ایک ڈیم کی تصویر دکھائی اور ساتھ ہی ڈیم کی چوٹی پر بنی ایک جھونپڑی دکھائی جس میں ایک بوڑھا بابا رہتا ہے، وہی اس ڈیم کو بنانے والا ہے اور وہی اس ڈیم کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ بچے ضد کرنے لگے کہ یہی کہانی سننی ہے ایک بچے نے کہا نانی اماں اکثر کہانیاں تو فرضی ہوتی ہیں کیا یہ بھی فرضی ہے؟ نانی نے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں یہ بالکل سچی اور اصلی کہانی ہے اور پھر یوں گویا ہوئیں۔ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مملکت خداداد میں ابتری پھیل گئی، امن و امان کی حالت خراب ہوگئی، نظام حکومت تباہ ہوگیا، ہر وزیر نے دو دو تین تین شادیاں کرلیں، کرپشن عروج پر پہنچ گئی، ٹھیکوں میں سے کمیشن لیا جاتا تھا اور پھر یہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیج دی جاتی تھی، اسپتالوں کا حال خراب تھا، حاملہ عورتیں برآمدوں میں بچے جننے پر مجبور تھیں،اسکولوں میں جانور باندھے جاتے تھے اور تو اور پانی کا قحط پڑنے والا تھا۔ کہیں پانی کو ضائع کیا جاتاتھا اور کہیںلوگ بوند بوند پانی کو ترستے تھے۔ ہر کسی کو علم تھا کہ پانی کی کمی کے مسئلے کا واحد حل نئے ڈیم کی تعمیر ہے لیکن کوئی اس مشکل اور مہنگے ترین کام میں ہاتھ ڈالنے پر تیار نہیںتھا مگر پھر ایک منصف مزاج بابا نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا اور اس سرگرمی سے فنڈز اکٹھے کئے کہ دنوں میں اربوں روپے جمع ہونے لگے۔ قوم کا مزاج بھی بدل گیا، ملک سے ابتری دور ہونے لگی۔ مسیحا نے وہ رنگ دکھایا کہ نظام حکومت میں اصلاحات پر سوچ و بچار شروع ہوگئی، امن و امان میںبہتری آنے لگی۔ وزیر، مشیر خوفزدہ رہنے لگے، کرپشن پر کنٹرول ہونے لگا، ٹھیکوں میں سے کمیشن کم ہوگیا، کرپٹ افراد ڈرنے لگے، ہسپتالوں کی حالت بہتر ہونے لگی، مخلوق خدا کی سنی جانے لگی، خود بابا چھٹی کےروز بھی عدالت لگا کر مجبور اور غریب لوگوں کے حالات سن کر فوراً احکامات جاری کرتا،اور تو اور اسکولوں کا نظام بھی بہتر ہونے لگا، ڈر کا رشتہ بھی عجیب ہوتا ہے ہر ایک باشندے میں اصلاح احوال کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو پانی کے حوالے سے بھی بہتر منصوبہ بندی ہونےلگی اور مملکت خداداد پانی میں خود کفیل ہوگئی۔ حالات کی اس تبدیلی کا بیرون ملک آباد پاکستانیوں پر بہت گہرا اور مثبت اثر پڑا، ہر طرف سے ڈالروں اور پائونڈوں کی بارش ہونے لگی۔وزیراعظم عمران خان بھی اس مہم میں شریک ہوگئے لیکن اس مہم کے اصل دولہا بابا جی ہی تھے ، اسی لئے جناب سپہ سالار نے بھی ڈیم کی تعمیر کےلئے مسلح افواج کی طرف سے چیک انہیںہی پیش کیا۔
کہانی یہاں تک پہنچی تھی کہ ایک شریر بچی تاویل خانم نے سوال جڑ دیا کہ نانی یہ تو افسانہ ہے، حقیقت بھلا ایسے کیسے ہو سکتی ہے، کیا صرف ایک شخص پورے نظام کو بدل سکتا ہے؟ آج2050 میں تو ایسا ممکن نہیں۔ نانی مسکرائیں اور کہا بچو اب دنیا بدل چکی ہے 30سال پہلے افراد ہی دنیا کوبدلا کرتے تھے، پھر نانی نے کہا کہ یہ دور میں خود دیکھ چکی ہوں یہ تبدیلی میں نے خود رونما ہوتے دیکھی تھی اور میں خود اس کی عینی شاہد ہوں اور اس سچ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مملکت خداداد میں آج کہیں پانی کی کمی نہیں۔ اس مہم کا آغاز اسی دور میں ہوا تھا اور پھر کیا ہوا کہ جب یہ مہم کامیاب ہوئی، ڈیم بن گیا تو مملکت خداداد نے دیامر بھاشا ڈیم کو بابا ڈیم کا نا م دے دیا اور خدا سے دعا کی کہ اس بابا جی کو عمر خضر عطا کرے تاکہ وہ وہاں رہ کر ڈیم کی چوکیداری کرسکے۔ خدا تو پہلے ہی مملکت خداداد پر مہربان تھا صرف اس کی نالائقیوں سے خفا تھا، بس خدا نےیہ دعا سن لی اور اب بابا ڈیم کے اوپر جھونپڑی میں اب بھی وہی بابا رہتا ہے وہ ڈیم کی حفاظت کرتا ہے، چوکیداری کرتا ہے اور یوں اس مملکت خداداد کے حوالے سے وہ بابا امر ہو چکا ہے۔
تاویل خانم کے سوال رکتے نہ تھے پھر بولی تو کہا اس وقت آئین اور قانون نہیں ہوتا تھا؟ ادارے نہیں تھے جو آئین اور قانون پر عمل کرتے؟ کیاسسٹم کام نہیں کرتا تھا؟ ایک شخص کیسے سب کچھ بدل سکتاہے؟ بوڑھی نانی پھر مسکرائیں اور کہنے لگیںبچو! آئین بھی تھا، قانون بھی، اور ادارے بھی تھے مگر یہ سارے سست اور مردہ ہو چکے تھے۔ چیف جسٹس بابا نے ان قوانین اور آئین کو جھنجوڑا اس کا خلاصہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور مملکت خدا داد میں اپنے تحرک اور خلوص سے ایسی فضا قائم کی جس سے اصلاح کا راستہ ہموار ہوا ۔ قومی دولت لوٹنے والے ڈرنے لگے اور یوں مملکت خداداد ایک نئے راستے پر چل نکلی۔
کہانی سننے والوں میں ایک بچہ سر پھرا کہلاتا تھا نانی نے توقف کیا تو سر پھرا بولا نانی!اس وقت کے سیاستدان کیا کر رہے تھے ، آج کل تو ملک کا نظام سیاستدان چلاتے ہیں کیا اس زمانے میں وہ نہیں ہوتے تھے؟
نانی نے مسکرا کر سرپھرے کو دیکھا اور کہا بیٹا عمران خان اس وقت وزیر اعظم تھا اور اس نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا اس نے بھی اپیل کی کہ ڈیم بنانے میں مدد کی جائے۔
سر پھرا مطمئن نہ ہوا اور کہنے لگا نانی آپ تو ہیرو صرف بابا کو کہہ رہی ہیں، وزرا، اپوزیشن، مشیر اور گورنر کہاں تھے؟
نانی سر پھرے سے اچھی طرح واقف تھیں انہیں پتہ تھا کہ 2050ء کی جنریشن کے بچے اسی طرح کے الٹ پلٹ سوال کرتے ہیں اس لئے بوڑھی نانی نے پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ساری قوم ہی ہیرو تھی سب نے حصہ لیا لیکن بہرحال اس مہم کا سہرا بابا جی ہی کے سر پر ہے۔
سر پھرا پھر بولا سیاسی جماعتوں نے کتنے فنڈز اکٹھے کئے۔ بوڑھی نانی کچھ دیر سوچتی رہیں شاید یاد کر رہی تھیں کہ کس نے کتنا فنڈ دیا تھا پھر انہیں یاد آیا کہ ایسا تو کچھ نہیں ہوا تھا۔ مسکراتے ہوئے بولیں نواز شریف جیل میں تھا اور آصف زرداری کو جیل نظر آ رہی تھی وہ ڈیم میں فنڈز کیسے دیتے۔
سر پھرا اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ نواز شریف سے ایک ارب روپیہ ڈیم کے لئے لیا جاتا اور زرداری سے دو ارب، تو کیا اس سے ان کی معافی تلافی نہیں ہوسکتی تھی، ایسا ہوتا تو وہ بھی قومی دھارے اور نئے پاکستان کے مزے لے سکتے تھے۔
نانی بولی! سیاست کے سینےمیں دل نہیں ہوتا، مملکت خداداد میں ہر چیز کی اصلاح ہوگئی مگر سیاسی عداوت کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ اگر یہ ہو جاتا تو یہ جنت ارضی ہوتی مگر کاش!!۔