لاہور (ویب ڈیسک) کسی زمانے میں میڈیا روزانہ، ہفت روزہ، بائی ویکلی، ماہانہ اور سال نامہ کہلاتا تھا۔ تب میڈیا کی دنیا میں ادب کی چاشنی، شعری ہنر اور زبان و بیان معیار سمجھا جاتا تھا۔ کریڈیبلٹی، ایڈیٹوریل کنٹرول اور سچائی رپورٹنگ کی بنیاد تھی۔ پھر میڈیا خالصتاً سیاسی ہو گیا ۔ اسی دوران میڈیا نے اپنے نامور سیاستدان اور کالم نگار بابر اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو ریاست کا چوتھا ستون کہنا شروع کر دیا۔ اسی دور میں میڈیا نے اپنے لئے انڈسٹری کا نام بھی چن لیا ۔ اب میڈیا واقعی ایک انڈسٹری ہے۔ درجنوں شعبے، سینکڑوں ایگزیکٹو اور ہزاروں کارکن اس انڈسٹری سے وابستہ ہو گئے۔ میڈیا کے کچھ حصے اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ انہوں نے ”کنگ میکر‘‘ کا کردار اپنا لیا۔ اگر ہم میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون مان لیں تو پھر ہمیں ریاست کے دیگر تینوں ستونوں پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ ریاست کے ان تینوں ستونوں کو Trichotomy of power یعنی طاقت اور اقتدار کی آئینی مثلث بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلا ستون ملک کی پارلیمنٹ، آئینی زبان میں legislature ہے جس کا انتخاب عام انتخابات کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ، آئین سازی اور قانون بنانے کی ذمہ دار ہے۔ اس کے ارکان کو بہت سارے تحریری استحقاق حاصل ہیں۔ مثال کے طور پہ اگر کوئی رکن اسمبلی فلور پر اظہار رائے کرے تو اسے پراسیکیوٹ نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی کسی عدالت میں ایسا اظہارِ رائے قابلِ مواخذہ ہے یا قابلِ دست اندازیٔ پولیس ہے۔ ریاست کے اس پہلے ستون کا کوئی رکن اگر گرفتار کر لیا جائے تو اس ستون کا کسٹوڈین اُسے ماورائے عدالت پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا پروڈکشن آرڈر جاری کر سکتا ہے۔ لیکن قانون کے معاملے میں ریاست کے اس پہلے ستون کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ اس کے ارکان سال میں دو دفعہ دو مختلف اداروں کے سامنے اپنی آمدن، خرچ، اثاثوں اور ٹریولنگ وغیرہ کے گوشوارے پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلا ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے جبکہ دوسرا فیڈرل بورڈ آف ریونیو۔ ریاست کے اس ستون کے ہر رکن کے بینک اکائونٹس سمیت ہر چیز پبلک سکروٹنی کے لئے پیش کی جاتی ہے۔ اب تو اس کی سالانہ ڈکشنریاں بھی شائع ہوتی ہیں۔ تین ادارے اس کے علاوہ ہیں جنہیں ریاست کے اس ستون کے ہر رکن کا ہر پہلو زیرِ سکروٹنی لانے کی اجازت ہے۔ ان اداروں میں صوبائی سطح پر اینٹی کرپشن ایکٹ 1947 کے تحت کارروائی ہوتی ہے۔ وفاقی سطح پر NAB آرڈیننس 1999 اور FIA ایکٹ 1975 لاگو ہیں۔ ان میں سے احتساب کا قانون شریف خاندان لے کر آیا تھا اور ادارے کا سربراہ شریف خاندان کے گھریلو آدمی سیف الرحمن کو لگایا گیا۔ سال 2017 میں شریف خاندان نے ”آملہ‘‘ کا قانون بنایا۔ آملہ سے مراد ANTI MONEY LAUNDERING ACT, 2017 ہے۔ اس قانون کے تحت اب ANF کو بھی منی لانڈرنگ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ اس طرح ریاست کے اس ستون کے خلاف حرکت میں آنے والے اداروں کی کل تعداد چھ ہو چکی ہے۔ دوسری جانب ان قومی اداروں کی زد میں آنے والوں کی تعداد دو چار نہیں درجنوں اور گُرسوں تک جا پہنچی ہے۔ ہمارے میڈیا کا زیادہ تر وقت ریاست کے اوّلین ستون کے ممبران کے بارے میں خبروں کی ٹوہ لگانے میں گزرتا ہے۔ باقی وقت میں ان کے مزاحیہ خاکے اور نقلیں اتارنے میں فن کار اور بھانڈ سیاسی فنکاری اور بھانڈ بازی کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ان ارکان میں سے ہر کسی کو ہر میڈیِم آف میڈیا ایک مشترکہ مشورہ مفت دیتا رہتا ہے۔ الزام لگے تو قانون کے آگے سر جھکائو، عدالت میں جائو، اور اپنا نام کلیئر کروائو۔ قانون کی نظر میں کوئی مقدس گائے نہیں۔ریاست کا دوسرا ستون ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی ہے‘ جس کی آئین کے آرٹیکل نمبر 90 اور 91 میں تخلیق کی گئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مصطفیٰ ایمپکس کراچی بنام گورنمنٹ آف پاکستان کیس میں اس آرگن آف سٹیٹ کی تشریح کی ہے جو PLD 2016 Supreme Court Page No. 808 میں رپورٹ شدہ ہے۔ ایگزیکٹو اتھارٹی پر مزید اضافی پابندیاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے جواب دہی۔ دوسرے، آئین کی رو سے قائم کردہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے روبرو سکروٹنی اور تیسرے آئین کے آرٹیکل نمبر 168 کے نیچے قائم کئے گئے آڈیٹر جنرل کے ادارے جیسے واچ ڈاگ کے آگے جواب دہی۔ پارلیمنٹ کے آٹھ ایوانوں کے روبرو وقفۂ سوالات، توجہ دلائو نوٹس اور رولز آف بزنس کے مطابق بے شمار motions اس کے علاوہ ہیں۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 48 2 کی رو سے صدرِ مملکت اور صوبائی گورنرز کو صرف عہدے کی مدت کے دوران مقدمات کے خلاف آئینی استثنیٰ حاصل ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ گورنر عہدے کے لحاظ سے ایجنٹ آف فیڈریشن ہوتا ہے جبکہ صدرِ پاکستان فیڈریشن کی آئینی علامت ہے۔ ریاست کے اس دوسرے ستون کی جواب دہی کا گھیرا اس قدر تنگ ہے کہ اس کے نائب قاصد سے لے کر وزیرِ اعظم تک سب گرفتا ر ہو سکتے ہیں۔ قانون کے سامنے شہریوں اور ریاست کے حقوق پر دست درازی اور ڈاکہ زنی کے الزام میں کٹہرا، جیل اور ہتھکڑی‘ سب ان کے سر پر اکثر لٹکتے رہتے ہیں۔تثلیثِ اقتدار کا تیسرا ستون نظامِ عدل (Judicature) ہے‘ جس کی اولین سطح لوئر جوڈیشری کہلاتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 203 کے تحت ملک کی پانچ ہائی کورٹس اس پر نگرانی کرتی ہیں۔ مس کنڈکٹ، رشوت ستانی یا efficiency & disciplined المعروف E&D کے تحت یہاں ججز کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے‘ جس کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں دستیاب ہے اور پھر یہ جج داد رسی کے لئے سپریم کورٹ بھی جا سکتے ہیں۔فیڈرل شریعت کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آئینی عدالتیں کہلاتی ہیں۔ آئینی عدالتوں کے جج حضرات کے خلاف ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت کیس درج کروایا جا سکتا ہے‘ جس کا طریقہ کار اور فورم بھی آئینی ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 209 کی رو سے جج حضرات کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی اور فیصلے صادر کرتی ہے۔ ان بڑی عدالتوں کے کئی جج آئین کے آرٹیکل نمبر 209 کے تحت عہدوں سے نکال باہر کیے گئے۔ آئیے! اپنے وطن کے اس ادارہ جاتی احتساب کے نظام کے کچھ دیگر پہلو بھی دیکھ لیں۔آئین کے آرٹیکل نمبر 4، آرٹیکل نمبر 9 اور آرٹیکل نمبر 25 کے مطابق قانون کی نظر میں سب پاکستانی برابر ہیں۔ چاہے وہ سویلین ہوں یا فوجی۔ قومی احتساب کے اسی تناظر میں پاک آرمی کا ایک لیفٹیننٹ جنرل آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ ایک آواز جو ریاست کے چوتھے ستون سے مسلسل گونجتی رہتی ہے وہ ہے ”ہم کسی کو مقدس گائے نہیں مانتے‘‘ اسی منترہ کے نتیجے میں “Three JJJ’s” کا کمبی نیشن مشہور ہوا اور وہ یہ کہ جج، جرنیل اور جرنلسٹ قانون سے ماورا ہیں نہ احتساب سے بالا تر۔پسِ نوشت: یہ وکالت نامہ فری لیگل ایڈ سمجھ کر قبول فرما لیں کیونکہ ابھی تک میڈیا کورٹس کے کسی حامی یا مخالف نے ان کے قیام پر میرے لاء آفس سے رابطہ نہیں کیا۔ چلیے! میں آپ کو اس فورم پر جج کر لیتا ہوں۔ ازراہِ کرم، کہنا یہ تھا کہ اس کالم کا اختتام میرے بجائے آپ لکھ چھوڑیں۔ فی الحال میں تو اُن آوازوں میں شامل ہوں جو کسی کو بھی مقدس گائے نہیں مانتیں۔ چاہے سب سے بڑا جے ہو، درمیانہ جے یا پھر جے کا چھوٹو پیک۔ چھوٹو اُردو میں اور پیک انگلش میں پڑھیے گا۔ دخترِ رز کو زہرہ فام نہ کہہ،کوئی ہم نام لڑ پڑے گا دوست، جام کو آئینہ کی سمت نہ ر کھ ،جام سے جام لڑ پڑے گا دوست۔