تحریر: علی عمران شاہین
گردش دوراں جاری اور ایک بار پھر 6 دسمبر کا دن پھر آ گیا ہے، دنیا کے اربوں انسانوں اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے لئے تو یہ معمول ہی کا دن ہے لیکن… بھارتی مسلمانوں کیلئے یہ دن ہر دن سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ہر سال اس روز بھارت کے اطراف و اکناف میں مسلمان بابری مسجد کے غم میں سیاہ جھنڈے لہراتے ہیں، مظاہرے بپا کرتے ہیں، چیختے چلاتے، شور مچاتے ہیں۔ اردو اخبارات اپنی خبروں، کالموں اور تبصروں میں بابری مسجدکے تذکرے چھیڑتے ہیں توبابری مسجد گرانے والے ہندو اس روز” یوم شجاعت ”مناتے ہیں۔
بھارت سرکار اس سے پہلے ہی ہنگامی صورتحال کا اعلان کر کے فورسز متعین کرتی ہے اور پھر … ایسے ہی یہ دن گزر جاتا ہے … 6دسمبر 1992کے دن کا واقعہ یکلخت تو ظہور پذیر نہیں ہوا تھا۔ بھارت کی مسلم کش ہندو بنیاد پرست اور انتہا پسند تنظیمیں کتنے ماہ وسال سے ملک بھر میں بابری مسجدشہید کرنے کے لئے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتی رہی تھیں۔ انہوں نے ہی تو 6دسمبر کے دن کا تعین کیا تھا اور کارکنوں کو ایودھیابلایا تھا۔ بھارتی حکومت سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بھی اندھی بنی ہوئی تھی کہ اس روز 11بج کر 55منٹ پر لاکھوں دہشت گرد ہندو ایک ساتھ ہتھوڑے، کدالیں، بیلچے اور ڈنڈے لے کر بابری مسجد پر چڑھ دوڑے تھے… معمولی گنتی کی تعداد میں متعین بھارتی فورسز پیچھے ہٹ کر یوں کھڑی ہوئی تھیں کہ جیسے اب وہ مسجدزمین بوس کرنے والوں کی محافظ ہیں۔
اترپردیش کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے اعلان کر رکھا تھا کہ اس کے پاس موجود فورسز مسجد کی حفاظت کیلئے کافی ہیں لیکن کلیان سنگھ تو اس ساری سازش کا خود حصہ تھا ۔وہ تو خود مسجد میں نصب مورتی کے سامنے کھڑا ہو کر یہ عہد باندھ چکا تھا کہ ”اے رام! ہم آئیں گے اور مندر یہیں بنائیں گے” ۔چمکتے سورج اور روشن دن میں سارا عالم دیکھ رہا تھاکہ کعبہ کی بیٹی اور روئے زمین کا ایک مقدس مقام لاکھوں ہندوئوں کے سامنے بے بس تھا ۔شام 4بجے تک بابری مسجد کی اینٹ اینٹ الگ کر کے دور پھینک دی گئی۔ ایودھیا ہی نہیں سارے اترپردیش پر بدمعاشوں کا قبضہ تھا۔ وہ بابری مسجد کے یوں پرخچے اڑا چکے تھے کہ جیسے انہوں نے تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ سر کر لیا ہے۔
انہوں نے اس روز اسی پر بس نہیں کیا بلکہ آگے ریاست بھر اور دیگر شہروں میں بھی بے شمار مساجد تہس نہس کر ڈالیں۔بے شمار مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتارا گیا۔ان کے گھر، دکانیں لوٹ کر عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ اس ساری دو رورزہ وحشت ناک کارروائی میں کسی ہندو کو معمولی گزند بھی نہیں پہنچی۔ہند سرکار مانتی ہے کہ نئی دہلی اور ممبئی مسلمانوں کے خون سے نہلا دیئے گئے تھے۔پھر یہاں ہندوئوں نے مسجد کے ملبے پر مندر کی بنیاد رکھی، بت نصب کئے اورپوجا پاٹ شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ مندروسیع کیا جاتا رہا اور اب تو سپریم کورٹ نے بھی مسجد کے اوپر بنے اس بت کدے کی منظوری دے ڈالی ہے۔
یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے مسجد کی شہادت سے پہلے یہ احکام جاری کئے تھے کہ مسجد کی عمارت کو قطعی کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ مسجد کو شہید کرنے والوں نے بھی سپریم کورٹ کو بارہا یہ ضمانتیں جمع کرائی تھیںکہ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے لیکن پھر کیا ہوا…؟ یہ سب نے دیکھ لیا… اور اب بھی سب دیکھ ہی رہے ہیں کہ بابری مسجد تو کیا، دیگر شہید ہونے والی کوئی مسجد بھی دوبارہ نہ بنی بلکہ کسی ایک ہندو کو بھی کسی ایک جرم کی سزا نہ ملی۔
بابری مسجد کی داستان بھی عجیب ہے… ہندوستان کے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے یہ مسجد 1527ء میں اپنے دربار کے نامور شخص مہرباقی کے ذریعے تعمیر کرائی تھی۔ مسجد کے اوپر 3گنبد تھے جن میں درمیانی گنبد بڑا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے چھت بلند بنائی گئی تھی۔ ماہر کاریگروں نے تعمیر ایسی کی تھی کہ مسجد کے محراب میں خطیب کا خطبہ ہر حصے میں صاف اور واضح سنا جا سکتا تھا۔ صدیوں اللہ کی کبریائی اور نبی کریمۖ کی رسالت کی گواہی دینے والی اس مسجد کے حوالے سے قضیہ کا آغاز انگریزوں کی آمد کے بعد شروع ہوا جن کا ماٹو ہی ”لڑائو اور حکومت کرو” تھا۔ یہ انگریزوں کی شرارت ہی تھی کہ انہوں نے 1855 میں یہاں ایک بودھ نجومی کو بھیجا اور کہا کہ وہ زائچہ بنا ، حساب کتاب لگا کر بتائے کہ یہاں ”رام کا جنم مقام” اور ”سیتا کی رسوئی” واقع ہے۔
نجومی نے ”حساب کتاب” کر کے بتایا کہ یہ مسجدسے متصل احاطے میں ہے لہٰذا ہندو اس جگہ کو حاصل کر کے اپنا مندر بنانے کی کوشش کریں۔ اس وقت یہاں نواب واجد علی خاں کی حکومت تھی جس کا سسر اور وزیر نقی علی خان تھا جو انگریزوں کی اس سازش میں ان کا حامی و مددگار بلکہ اہم طرف دار بن کر سامنے آیا۔ اس نے نواب کو اس بات پر آمادہ کیاکہ بابری مسجد سے متصل ہندوئوں کوجگہ دے دی جائے۔ یوں مسجد کے چھت والے حصہ کے بالمقابل مسجد کے احاطہ کی دیوار سے متصل دائیں جانب 21فٹ لمبی اور 15فٹ چوڑی جگہ ہندوئوں کو دے کر انہیں بت نصب کر کے پوجا کی اجازت مل گئی۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جس وقت یہ سارا واقعہ ہو رہا تھا، اس سے پہلے ہی ایودھیا شہر کے عین وسط میں رام کا ”جنم استھان” موجود تھا جواب بھی موجود ہے۔اس کے بعدانگریزوں نے مسجد اور جنم استھان کے درمیان حد فاصل قائم کرتے ہوئے مسجد کے صحن کے اردگرد لوہے کی سلاخوں کی باڑھ نصب کر دی تویہ جھگڑا ہر روز بڑھتا ہی گیا۔کچھ عرصہ بعد ایودھیا کے ممتاز مسلم رہنما امیر علی اور ہندو رہنما بابا چرن داس نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے معاہدہ کیا کہ رام جنم استھان کی مخصوص زمین ہندوئوں کی ملکیت ہو گی جبکہ ہندو اس کے بعد بابری مسجد کی عمارت کے حوالے سے ہمیشہ کیلئے دست کش ہو جائیں گے اور دونوں مقامات کو الگ کر دیا جائے گا۔یوںیہ مسئلہ حل ہو گیا لیکن انگریزوں نے اپنی سازش ناکام ہوتی دیکھ کر اگلی چال چلی اور ظالمانہ روش کے تحت دونوں شخصیات کویہیںاملی کے ساتھ درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دی۔ متنازعہ جنم استھان اور مسجد کے درمیان دیوار بنا کر الگ راستے بنا دیئے تو ساتھ فریقین کو اکسایا کہ وہ سارے رقبہ پر اپنا اپنا دعویٰ کریں۔
طویل تحریک آزادی کے بعد 1947 میں انگریز یہاں سے چلے گئے لیکن ساتھ ہی بھارت کے ہر حصے میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی آندھی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ لاکھوں مسلمان بھارت چھوڑ کر پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے تو ان کی املاک کی لوٹ مار اور قتل و غارت گری بھی ہر طرف جاری تھی کہ 23دسمبر 1949کو ایک ہندو پجاری نے نصف شب مسجد میں گھس کر مورتی نصب کی اور صبح سویرے شور مچا دیا کہ مسجد کے صحن میں رام کی مورتی ”اُگ” آئی ہے۔بات پولیس تک پہنچی، ہنگامہ ہوا اور پھر مسجد سیل کر دی گئی لیکن وہاں نصب مورتی کو جوں کا توں رہنے دیا گیا۔پھر سالہاسال ہندو کبھی چوری چھپے تو کبھی سینہ زوری سے آتے، آیات قرآنی مٹاتے اور اپنے مذہبی نشانات اور نعرے کندہ کر کے چلے جاتے لیکن انتظامیہ و عدلیہ صرف خاموش تماشائی بنی رہتی، حتیٰ کہ مسجد میں بھگوا جھنڈا لگا باقاعدہ پوجا گھاٹ بنا دیا گیا۔ اسی عدلیہ نے 30جنوری 1986کو ایک ہندو شخص رمیش پانڈے کی اپیل پر حکم سنا دیا کہ اسے مسجد کھول کر پوجا پاٹ کی اجازت دی جائے بلکہ انتظامیہ اس کی حفاظت کرے، معمولی سی عدالت کا حکم نامہ آنے کی دیر تھی کہ مسجد کھول کر رمیش پانڈے اور ہزاروں ہندوئوں کو گھسنے اور پوجا پاٹ کا کھلی چھٹی مل گئی۔
بھارتی سرکاری چینل ”دور درشن” یہ سب براہ راست دکھا رہا تھا تو ہندو جشن منا تے مسلمانوں پر حملہ آور تھے۔ مسلمانوں نے احتجاج کیا تو بے شمار کوگولیوں سے نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا گیا۔ یوں ہندوئوں نے ساری مسجد مکمل شہید کر کے عظیم الشان مندر بنانے کا اعلان کر دیا۔ وشوا ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل نے ملک گیر تحریک چھیڑ دی جو بالآخر 6دسمبر 1992کو اس کے ساتھ ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی اور ونئے کٹیار کی نگرانی میں مکمل ہو گئی۔ بابری مسجد کے ساتھ دیگر سینکڑوں مساجد کا نام و نشان مٹا دیا گیا۔کروڑوں مسلمانوں کوخون کے آنسو بہانے اور رونے رلانے پر مجبور کر دیا گیا۔یہ سلسلہ تب سے اب تک جاری ہے۔ آج ہربھارتی مسلمان پر شکنجہ ہر روز کسا جا رہا ہے اور پاکستانی مسلمان بھارت اور ہندو سے پیار جتا رہا ہے۔
تحریر: علی عمران شاہین
برائے رابطہ:0321-4646375