چالیس سال بعدآیا
تحریر : سید حبیب حسین شاہ ایڈووکیٹ
اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا بابو راولاکوٹ دہمنی چھمب کارہنے والاچاربہنوں کا واحد بھائی۔چالیس سال پہلے تقریباًدس سال کی عمرمیں اغواء ہوااور چالیس سال محدودایریا میں بند رہنے کے بعد پچاس سال کی عمرمیں گھر پہنچا۔ماں بیٹے کے فراغ میں رورو کے ابڑی ہوچکی ہے۔آنکھیں اس کی بہت اندردھنس چکی ہیں۔ چالیس سال کاغم پریشان دکھ والم اس کو دیکھتے ہی ظاہرہوجاتاہے اس دکھ نے اس کو اتنانازک اور ضعیف کردیاہے کہ بمشکل دوتین منٹ بات کرنے کے بعدوہ سرپرہاتھ رکھ لیتی ہے اور توتلی بولناشروع ہوجاتی ہے ۔کیونکہ اس میں ہمت نہیں کہ وہ یہ کہانی بیان کرسکے اسے قدرت نے ایک ہی بچہ عطاکیاتھااورظالموں نے وہ عطایت اس سے چھین لی اوریوں چالیس وہ آس باندھے رہی کہ آئے گاآئے گامیرابیٹاضرورآئے گا۔شایدبارگاہ الٰہی میں وقت قبولیت تھاکہ اس کی دعا قبول ہوئی لیکن قبولیت نے چالیس سال دیرکردی ۔قصص الانبیاء میں بچپن میں ایک شیرراقم پڑھتاتھا۔
لیاجب کہ آدم نے گندم کوکھا
ملااسے حکم کہ جنت سے جا
بعدمدت اس پررحم کری
میری بارکیوں اتنی دیرکری
اوربھی شعراء نے اس طرح کے شعرکہے ہیں لیکن علامہ اقبال نے کہاتھاکہ :
باغ بہشت سے مجھے حکم سفردیاتھاکیوں
کارجہاں درازہے اب میراانتظارکر
لیکن یہاں توبابوکوماں نے گھرسے نکالااورنہ ہی بیٹے نے انتظارکاشکوہ کیا۔بلکہ ظالموں نے ماں سے بیٹاچھین لیا۔بیٹے سے ماں چھین لی اورچاربہنوں کے اکیلے بھائی کی محبت چھین لی۔بابونے کہاکہ اس کے والدنے کراچی میں دوسری شادی کرلی تلخی روزگارکے مارے وہ چوتھی جماعت میں پڑھتے ہوئے راولپنڈی چلاگیااوروہاں سے کراچی پہنچ گیااورکراچی جاکرکسی کی ملازمت اختیارکرلی۔کارپرکوئی بندے آئے اس سے دوسری دوکان سے سامان دینے کاجھانسہ دیاوہ بے ہوش ہوگیاجب ہوش آیاتووہ بھینسوں کے ایک باڑہ میں تھاجہاں تقریباًچاسوبھینسیں اوردیگراغواء شدہ بچے اور نو عمر تقریباًچارسوافرادموجودتھے ۔ایک طرف نیلے رنگ کی گہری جھیل تھی جسے پارکرنامشکل تھااوردوسری طرف باڑلگی ہوئی ،اونچی تاریں جہاں اغواء کاروں کے سنتری بندوقیں اٹھائے کھڑے تھے ۔کوئی بھاگنے کی کوشش کرتاتواسے گولی ماردیتے ۔کوئی نہرمیں کوداتوغرق آب ہوا۔نہ جنازہ اٹھا،نہ مزاربنانہ ماں کوخبرنہ باپ کوخبرنہ بہن بھائیوں کوخبر۔بچپن کھیل کودکاگیاجوانی جوش وجذبے کی گئی اوربڑھاپاموت کوقریب لایا۔بابوکہتاہ کہ وہ بھینسوں کاچارہ بناکربھینسوں کو کھلاتا تھا اور گوبرصاف کرتاتھا۔
باقی بے چارے بھینسوں کاکام کرتے کوئی دودھ دھوتاالغرض !غلامی قید میں نہ ہونے کے برابر زندگی میں ایک وقت کے کھانے میں ایک چپاتی اچاراور پیازکے ساتھ کھانے کوملتی ۔کبھی کبھار تھوڑی بہت سبزی بھی مل جاتی لیکن چالیس سال میں بس یہ لذت خوراک پیٹ کی آگ میں پڑتی رہی کہ خوردن برائے زیستن ،نہ زیستن برائے خوردن ،کی عظیم مثال قائم کردی ۔اس سارے عرصہ میں دودھ دھویاتوضرورمگرپیانہیں ،نہ پھل دیکھابلکہ چالیس سال کے عرصہ میں کسی گاڑی کی آوازبھی نہ سنی ۔چالیس سال کے بعدبیماری نے آلیاسفرآخرت کی تیاری ہوئی ظالموں کے دل میں شایدرحمت دلی کی کوئی ایک آدھ شریان چل رہی تھی ڈاکٹروں نے چیک کرکے کہاکہ ٹی بی ہوگئی ہے اوربابومرنے کے قریب ہے ۔اغواء کاروں میں سے ایک نے گولی مانے کی ٹھانی دوسرے نے تجویزدی کہ پستول بابوکودوخودکشی کرے۔بابونے انکارکیاکہ خودکشی نہیں کرے گاخودگولی مارو۔غنودگی اتری اورآنکھ کھلی توکوئی مسیحاسامنے تھایافرشتہ تھادیکھنے میں تووہ خداکابندہ لگتاتھا۔اس نے پوچھاکہ تم کون ہو؟میں نے کہاکہ مرنے کے قریب ہوں کسی ہسپتال میں پہنچائواس نے ہسپتال پہنچایااوراپنے شناختی کارڈپرہسپتال میں داخل کرایا۔
کیونکہ میرے پاس کوئی شناختی کارڈنہ تھانہ کوئی اتہ پتہ ،علاج کی قیمت بھی شاہداس نے اداکی ۔بیمارپرصحت نے تھوڑابہت قابوپایاہسپتال والوں نے پولیس کے حوالے سے کیاپولیس پنڈی پہنچایااورپیرودھائی سے گاڑی پرسوارہوکرراولاکوٹ پہنچا۔اوریوں چالیس سال کاطویل سفرطے کرنے کے بعددہمنی ائیرپورٹ کے قریب تھک ہارکربیٹھ گیا۔زمانہ بدلاہواتھاوہی آسمان تھاوہی زمین تھی پہاڑوہی تھے آب وہوابھی وہی تھی لیکن مکان وہ نہ تھے ۔زیادہ ترٹین اوربنگلے اورآبادی بہت پھیل چکی تھی ۔کوئی راہ گیرنوجوان ملاجسے نہ میرے والدمحمدرحیم اورنہ ہی داداصاحب دین کانام معلوم تھا۔واپس چک بازارمیں لے گیاپرانے لوگ ملے کہانی سنی اورگھرپہنچایا۔ماں کی ممتانے بیٹاپالیا۔بہنوں کی محبت نے بھائی پالیااوریوں چالیس سال کی زندگی گنواہ کرماں بہنوں کے درشن پائے۔والدلحدمیں اترگیااوریوں زندگی نے ایک نے سفرکی آنگڑائی لی۔جس کی مسافت طے کرنے کے لیے اب بابواس قابل نہیں رہا،دکھوں غموں بیماری نے نڈھال کرکے رکھ دیااوراغوا ء کاروں نے میری دنیااجاڑکررکھ دی اپنے سکول فیلوزبہتوں کے نام لیے سرداردادخان ایڈووکیٹ ہال لاء آفیسرپی ڈی اے کانام لیا۔ایک کلاسفلوشکیل نام لیااورلوگ آتے گے اورملتے گئے۔
حقیقی بہنوں کے علاوہ ایک سوتیلی بہن جس کی والدہ بھی کراچی مہاجرین ہندوستانی تھی ۔کراچی بہائی ہوئی اورسوتیلابھائی کہیں دہمنی میں آبادہے۔راقم نے جب بابوکاسناتودل ودماغ پرعجیب دکھ صدمہ اورخوشی کی بہاربھی محسوس ہوئی ۔میری عدالت کے ایک سینئرجج یوسف ہارون کا اکلوتا بیٹاعمرآٹھ نوسال گئے تین سالوں سے اغواء کاروں کی قیدمیں ہے ۔یوسف ہارون سینئرسول جج سپریم کورٹ آف پاکستان نے دھاڑیں مارمارکررویایوسف ہارون صاحب کی بیگم بھی اکلوتے بیٹے کے غم میں نڈھال ہے وہ سپریم کورٹ کے باہردھاڑیں مارمارکررورہی ہے آنکھیں اس کی بھی بابوکی ماں کی طرح دھنس چکی ہیں۔جس طرح بابوکی ماں جھریوں کی زدمیں آچکی ہے اس کے چہرے پربھی غم کی جھریاں پھیل رہی ہیں۔میں نے یوسف ہارون صاحب کوبابوکے آنے سے پہلے کہاتھاکہ آپ کا بیٹا ضرورآئے گاکیونکہ میرے گائوں کے ایک لڑکے کوبھی اغواء کرکے لے گے تھے جوچارپانچ سال کی عمرمیں اغواء ہوااورنودس ماہ کی عمرمیں لاہورپولیس نے چھڑالیاتھا۔
اب پاکستان میں وہ پولیس تونہ رہی کیونکہ ہمارے پہاڑی آخن میں”کتی چوریں کنے ملی نی”(کتی چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے )قارئین!آپ کومضمون لمباتومحسوس ہوتاہوگالیکن اس دل کے ٹکڑے ہزارہوئے اورہرٹکرے میں ہزاورں چھیدہوئے ہیں اللہ کرے کہ یوسف ہارون صاحب کابچہ بھی واپس آئے ۔لیکن چالیس سال نہیں بلکہ بہت جلد آئے(آمین)البتہ میرابیٹابھی زندہ ہوتاتوواپس آجاتا۔لیکن وہ کبھی نہیں آئے گا۔مائوں کے جگرگوشے جوایک دونہیں بلکہ چارپانچ سوہیں اوروہ پاکستان کی حدودمیں ہیں جوفیصل آبادکی کچھ دوری پرہوں گے ۔فیصل آبادجنگل کتنے ہوں گے اگرحکومت فوج اورپاکستان کے سپریم کورٹ اورہائی کورٹ حقیقی کوشش کریں تواس کیمپ سے دیگرچارپانچ سوبابوبھی زندہ والدین کے پاس آسکتے ہیں۔جب کوئی اغواء نہیں ہوگاکوئی قتل نہیں ہوگاتوہرشہری کی زندگی اس کے مال اس کی آزادی کاتحفظ ہوگا۔
توپھرکوئی کہے گاکہ یہ میراوطن ہے اوراس پردل وجان بھی قربان ہے لیکن محض صبح اٹھ کرریڈیو پروطن کے گیت اوروطن کی تعریف نہ وطن کااحساس دلاتی اوراحساس زندگی کااحساس دلاتی ہے ۔میری ان سب سے جوکچھ نہ کچھ سننے کے قابل پاکستان میں موجودہیں اگروہ سن سکتے ہیں توسنیں کہ تم رعیت کے پاسبان ہوتم رعیت کی آزادی زندگی کے رکھوالے ہواگرتمہارے اندراحساس ہے تورعیت کی رکھوالی کروورنہ بہت جلداٹھنے والاہے یہ بازارحسن اورتمہاری داستان میں رہے گی داستانوں میں آخروطن کے نام پریہ ظلم لوگ کب تک برداشت کریں گے۔
کیاسترسال بہت مختصرعرصہ ہے؟اورسترسال کااندھیرادیکھنے کے بعدلوگوں کوجھوٹے وعدے دیتے ہوکہ وہ صبح ضرورآئے گی جس میں سویرہ ہوگانورہوگااوربہترماحول ہوگا۔بابوآیاتوزمانہ بدلاہوا تھااب توطلعت محمودکاگاناہی گنگناسکتاہے کہ :
ہرتویہی وہ آسماں اورہے وہی زمیں
پرمیری تقدیرکااب وہ زمانہ نہیں
اوراپنے اغواء پروہ گاسکتاہے:
ہم ہیں متاع وکوچہ بازارکی طرح
اٹھتی ہے ہراک نگاہ خریدارکی طرح
باقی آئندہ یارزندہ صحبت باقی
تحریر : سید حبیب حسین شاہ ایڈووکیٹ