تحریر: عبدالوارث ساجد
بچوں کا ادب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اور بلاشبہ بچوں کے لکھاری اُسی قدر زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی قوم کا مستقبل اس کے بچے ہی ہوتے ہیں۔ آنے والے وقت میں ان بچوں نے ہی بڑے ہوکر ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بچے کی تعلیم و تربیت اور نشونما سب کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ ایسے ہی وہ لوگ جو بچوں کی تعلیم و تربیت میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں وہ سب سے اہم ہوتے ہیں کیونکہ ان بچوں کی تربیت، کردار سازی ان کے ہی مرہون منت ہوتی ہے۔ بچے ایک نرم و نازک کونپل کی طرح ہوتے ہیں جن کو انسان ابتدا میں جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے۔
اور یہ مرحلہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے کو اترتے پانی کی طرح جدھر آپ چاہیں مڑ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے بچوں کے اساتذہ اور بچوں کے ادب کے تخلیق کار ہی وہ رہبر ہیں جو بچوں کو صحیح اور غلط راستہ دیتے ہیں۔ بچوں کے ذہن بچپن میں صاف سلیٹ کی طرح ہوتے ہیں اس پر جو بھی لکھ دیا جائے زندگی بھر کے لیے اس پر نقش ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے بچوں کی تعلیم و تربیت ان راہنما ہاتھوں میں ہو جو ان کی نشوونما صحیح طور پر کریں۔ اس سلسلے میں اگر ہم بچوں کے تخلیقی ادب پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں بہت سی کمیاں کوتاہیاں اور خرابیاں نظر آتی ہیں۔ جو بچوں پر اچھے نقوش اور صحیح تربیت میں مددگار کی بجائے الٹا غلط اثرات مرتب کرتی ہیں۔بچوں کے ادب میں سرفہرست وہ رسالے ہیں جو پاکستان میں برائے نام شائع ہورہے ہیں مگر پھر بھی بچوں میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں ان رسالوں میں شائع ہونے والا ادب بہت سی خامیوں سے مزین ہے۔
جھوٹے لطیفے بچوں کے رسائل میں ایک غلط کام، جھوٹے لطائف ہیں جو تقریباً ہر میگزین میں لازماً شامل اشاعت ہوتے ہیں۔ بلکہ ہر رسالے کے مستقل سلسلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ بلاشبہ کچھ لطائف اچھے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندر اچھے مزاح کا پہلو رکھتے ہیں اور جنھیں پڑھ کر سنجیدہ آدمی بھی بے اختیار مسکرا دیتا ہے۔ مگر زیادہ تر شامل اشاعت لطیفے جھوٹے اور من گھڑت ہوتے ہیں۔ گو کہ ان میں بے ہودگی نہیں ہوتی مگر جھوٹ لازماً شامل ہوتا ہے۔ اور جھوٹے لطیفے سُنا کر لوگوں کو ہنسانے پر اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ بلکہ پیارے نبی اکرمeنے تو فرمایا ہے کہ جھوٹے لطیفے سُنا کر ہنسانے والے کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے۔
حدیث کی کتاب سنن ابوداود میں پیارے نبی کی یہ حدیث یوں ہے: جناب بہز بن حکیم کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد (حکیم) نے اپنے والد (حضرت معاویہ بن حیدہ قشیریt) سے روایت کیا۔ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ اس سے لوگ ہنسیں۔ ہلاکت ہے اس کے لیے! ہلاکت ہے اس کے لیے!”(سنن ابوداود: ) اپنی طرف سے لطیفے بنانا اور خوش طبعی کے لیے جھوٹ بولنا کہ لوگ ہنسیں صاحب ایمان کو قطعاً زیب نہیں دیتا ہے، البتہ ایسا مزاح اور خوش طبعی جو مبنی بر حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور شرعی حدود قیود کے اندر ہو، جائز اور مباح ہے۔ اب اس آدمی سے بڑھ کر بُرا آدمی اور کون ہوسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو تو خوش کرتا ہے مگر خود اپنے لیے بربادی کا سبب بن رہا ہے۔ ہر جھوٹے لکھنے والے اور اسے شائع کرنے والے ایڈیٹر حضرات کے لیے یہ بات کس قدر اہم ہے کہ ایک جھوٹے لطیفوں کو شائع کرکے کتنے غلط کام کررہے ہیں۔
1 خود کے لیے ہلاکت و بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔
2 پیارے نبیeکی نافرمانی کررہے ہیں۔
3 شریعت اسلامیہ کا انکار کر رہے ہیں۔
4 اور خود کو جھوٹوں کی لسٹ میں شامل کررہے ہیں۔
5 جھوٹے لطائف لکھ کر دوہرا جرم کرتے ہیں۔
کیونکہ جھوٹ بولنا الگ سے ایک جرم ہے جس سے اسلام نے بہت شدت سے روکا ہے۔”حضرت عبداللہ (بن مسعود)tسے مروی ہے، رسول اللہeنے فرمایا: ”جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں پہچانے والا ہے۔ جو انسان جھوٹ بولتا ہو اور جھوٹ ہی کے در پے رہتا ہے تو وہ بالآخر اللہ کے ہاں کذَّاب (انتہائی جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ (ہمیشہ) سچ اپنائو، سچ (انسان کو) نیکی کی رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت میں پہنچاتی ہے۔ اور جو شخص سچ بولتا اور سچ کے در پے رہتا ہے تو وہ بالآخر اللہ کے ہاں صدیق (انتہائی سچا) لکھ دیا جاتا ہے۔”
سچ اور جھوٹ (صدق و کذب) کا تعلق صرف زبان کے الفاظ ہی سے نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ فعل اور نیت تک وسیع ہے۔ فکری اعتبار سے انسان ”صدق” کا متلاشی اور اس کے مطابق اپنے اعمال کو سرانجام دینے والا ہو اور اس کے برخلاف سے بچنے والا ہوتو یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔ ورنہ جلد یا بدیر ”فضیحت” سے بچ نہیں سکے گا۔ یہاں توبچنا محال صاف انداز سے جھوٹ لکھا جاتا ہے اور شائع کیا جاتا ہے اور پھر بچوں کو پڑھا کر انھیں گویا جھوٹ کی طرف راغب بھی کیا جاتا ہے۔ ایسا فعل جس کو اشارئے کنائے سے کرنا بھی اسلام نے منع فرمایا اسے ہم ادب کے نام پر برملا فروغ دیتے ہیں۔
”حضرت عبداللہ بن عامر کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا۔ ادھر آئو، چیز دوں گی اور رسول اللہ ہمارے گھر میں تشریف فرماتھے۔ آپ نے میری والدہ سے دریافت فرمایا: ”تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟” انھوں نے بتایا کہ میں اسے ایک کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر رسول اللہنے اس سے کہا: ”اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔” سچ اور جھوٹ بولنے کا تعلق بڑے آدمیوں ہی سے نہیں، چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی ہے بلکہ بعض صالحین نے تو اسے جانوروں تک وسیع کیا ہے کہ آدمی کسی جانور کو ایسی آواز دے یا جھولی بنا کر اسے بلائے اور اسے تاثر دے کہ اس میں گھاس، دانہ وغیرہ ہے، حالانکہ اس میں کچھ نہ ہو، تو وہ اسے جھوٹ قراردیتے ہیں۔ کیونکہ جھوٹ ایک قبیح خصلت ہے۔ اس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔
اور اس سے بچنے ہی کی بچوں کو تلقین بھی کرنی چاہیے۔ ہاں لطائف بچوں میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں اور اسی لیے بچوں کے رسائل میں باقاعدگی سے شائع بھی ہوتے ہیں اس کے لیے اگر سچے لطیفے تلاش کیے جائیں تو تاریخ میں بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں تاریخ بھی ہے اور سچ بھی۔ اور اگر سچے لطائف موجود ہیں تو پھر ہم کیوں بچوں کو جھوٹے لطائف پڑھائیں؟ اسلام نے سائشتہ مزاح کی اجازت دی ہے۔ ہمارے پیارے نبی اکرمe سے بھی ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں بلکہ” آپe کی مسکراہٹیں اور مزاح” کے نام سے تو باقاعدہ کتب دستیاب ہیں اسی طرح صحابہ کرامyاور تابعین، خلفائ، اور سلف سالحین کی زندگیوں سے بہت سے لاجواب مزاح کے واقعات دستیاب ہیں۔ اگر جھوٹ سے بچنے کی ذرا سی کوشش کریں تو ایسا مواد بہت مل جاتا ہے۔
پھر ان لطائف میں شعائر اسلام کی توہین بھی برملا ہوتی ہے بالخصوص فرشتوں ، جنت، دوزخ اور دیگر شعائر اسلام کے علاوہ اسلام پسند لطیفے بالخصوص مولوی کے خلاف لطائف تو بے دریغ شائع ہوتے ہیں۔ ایسے لطائف اکثر شائع ہوتے رہتے ہیں، جیسے ایک لطیفہ ماہنامہ بچوں کا باغ لاہور کے شمارے مئی 2013 میں شائع ہوا: ”مسجد میں ایک مولوی صاحب پل صراط کی تشریح کچھ یوں کررہے تھے کہ یہ تلوار سے زیادہ تیز، پانی سے زیادہ نرم اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ایک افیمی کھڑا ہوکر کہنے لگا: ایسا کیوں نہیں کہتے کہ جنت ہے مگر اس کے لیے راستہ نہیں۔” اب اس لطیفے میں سراسر جنت کا مذاق نہیں تو کیا ہے؟ اور وہ بھی ایک افیمی کے ہاتھوں اللہ ہی ہمارے حال پر رحم کرے۔
حاتم طائی بھی ٹارزن بن گیا ایسے ہی بچوں کے ادب میں جھوٹے کردار ہیں جن کے نام پر جھوٹ پہ جھوٹ لکھ کر ہر لکھاری کاغذ کا منہ سیاہ کرتا چلاجارہا ہے اور خود کو اللہ کے ہاں جھوٹا لکھواتا جارہا ہے۔ جن میں ٹارزن، عمروعیار اس طرح کے دوسرے فرضی کرداروں کی سیریز پر مشتمل کہانیاں شامل ہیں۔پچھلے دنوں”حاتم طائی افریقہ میں” نامی کتاب ایک لائبریری میں دیکھی تو حیران رہ گیا۔ یہ کتاب پاکستان کے معروف ادیب اور معروف پبلشر نے شائع کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس ادارے کے تحت ”حاتم طائی سیریز” کے پانچ اور حصے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں ”حاتم طائی لاہور میں۔ حاتم طائی دلّی میں۔ حاتم طائی پیرس میں۔ حاتم طائی لبنان میں۔ حاتم طائی لندن میں۔”جانے ان کتابوں میں مصنف حاتم طائی کو لاہور ، دہلی اور لندن کے آج کل کے جدید شہروں میں کیا کرواتا رہا ہے کیونکہ سیریز کی یہ کتابیں اتفاق سے میری نظر میں نہیں گزری البتہ مذکورہ کتاب ”حاتم طائی افریقہ میں” کے بیک ٹائٹل پردوسرے کتاب کا اشتہار کچھ یوں تھا:
”حاتم طائی زندہ ہو گیا!” دکھیوں کا ہمدرد، بے کسوں کا سہارا۔ اپنے وقت کا سب سے زیادہ سخی اور بہادر انسان جو 1500 سال پہلے عرب میں فوت ہوگیا تھا ”دوبارہ زندہ ہوگیا؟”آپ اس کا حیرت انگیز اور جرأت و بہادری سے بھرپور کارنامے پڑھتے وقت، ہر ہر سطر پر اُچھل اچھل پڑیں گے۔ وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ایک پاکستانی لڑکے کو بھارت کی قید سے چھڑاتا ہے۔ فلسطین کے مجاہدین کے ساتھ مل کر اسرائیل کے فوجی اڈے اڑاتا ہے۔ لندن کے لوگوں کو ایک خوں خوار انسانی بھوت سے نجات دلاتا ہے۔
حاتم طائی عرب کا مشہور ترین سخی تھا۔ اس کی سخاوت کے قصے قبل اسلام سے لے کر آج تک مشہور و معروف ہیں۔ کسے نہیں پتا کہ وہ ایک سخی انسان تھا ٹارزن نہیں۔ مگر ہمارے ہاں
عجب چلن ہے کہ بچوں کو حقائق پر مبنی لٹریچر فراہم کرنے کی بجائے فرضی قصے کہانیوں پہ لگادیا گیا کہ لو بچوں آپ بس ٹارزن، عمروعیار کے جھوٹے کارنامے ہی پڑھتے رہو۔ تمھاری سوچ بس یہاں تک ہی رہے کہ ایک جن آتا ہے وہ شہزادی کو اٹھا کر پہاڑوں پر لے جاتا ہے اور شہزادہ اسے چھڑانے جاتا ہے اور پھر ٹارزن اس کی مدد کو آجاتا ہے اور وہ مل کر جن یا دیو یا کسی جادوگر سے لڑائی کرتے ہیں اور شہزادی کوواپس لاتے ہیں۔
نہ بچوں کو فاتحین اسلام کی کہانیاں سنائی نہ ان کے کارنامے بتائے نا اسلاف امت کے تذکرے ہوئے اور نہ ہی مسلمان بادشاہوں کے قصے۔ جن میں سچ بھی ہے۔ تاریخ اور نالج بھی۔ سبق اور معلومات عامہ بھی۔ کیونکہ ہمارے ہاںبچوں کا ادب یرغمال ہی اُن لوگوں کے ہاتھوں رہا ہے جو اول دن سے ہندو کے غلام اور اسی سوچ کے مالک تھے انھوں نے بس بچوں کو بھی جن پریوں، روحوں، مندروں، دیو اور ٹارزن عمروعیار کے گرد ہی گھمائے رکھا۔ اب حیرت اس پر ہوئی کہ ”حاتم طائی” تاریخ کا ایک سچا کردار ہے۔ وہ ایک عرب بہادر انسان تھا جس کی سوچ انسانی ہمدردی سے بھری ہوئی تھی اس نے اپنی تمام دولت لوگوں پر خرچ کردی تھی اور وہ سخاوت میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس کے بیٹے سیدناعدی بن حاتمt اور ایک بیٹی نے اسلام بھی قبول کیا۔ حاتم طائی کے قصے اور کہانیاں مسند روایات کے ساتھ آج بھی تاریخ میں ملتی ہیں۔
لیکن افسوس کہ لکھنے والوں کو ٹارزن کے قصے لکھ لکھ کر اس قدر چسکا پڑ چکا ہے کہ انھوں نے اس انسان کی سچی اور تاریخی کہانیاں لکھنے کی بجائے اسے ہی ایک دوسرا ٹارزن بناکر بچوں کے ذہن میں ڈال دیا۔ اب وہ کبھی لاہور میں ہے اور کبھی دلی میں اور کبھی بھارت کے قید خانوں میں جاکر قیدی چھڑا رہا ہے اور کبھی اسرائیل کے ہوائی اڈے تباہ کررہا ہے۔ لاحول ولا قوة الا باللہ۔ حاتم طائی سیریز کی ان کتابوں میں بس بچوں کو یہی سبق دیا گیا ہے کہ حاتم طائی بھی کوئی ایک جن قسم کا انسان تھا جو پل بھر میں فوجی اڈے پر حملہ کرکے جہاز تباہ کردیتا تھا۔ اور کبھی انڈیا چلا جاتا ہے جہاں سے قید خانوں میں قیدی ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ بچوں کو اس کے اصل کارناموں کا بتایا ہی نہیں گیا کیونکہ نہ اس کی اصل تاریخ کا پتہ چلے۔ نہ اس کے کارنامے سمجھ آئیں اور نہ اس کی سخاوت کا تذکرہ ہو اور نہ ہی اس کی آل اولاد سے آج کل بچوں کو آگاہی ہو۔
جو کتاب ”حاتم طائی افریقہ میں” دیکھنے کو ملی اس کتاب میں بھی وہی روایتی کہانی ہے کہ حاتم طائی صحرا میں کوئی کٹا ہوا انسانی سر دیکھتا ہے جو زمین میں خود بخود ھنستا چلا جاتا ہے۔ اسے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے پہ کسی جادوگر کا سحر ہے۔ پھر وہ ایک غار میں چلا جاتا ہے جہاں اسے کھلے بالوں والی عورت ملتی ہے وہ اس سے پوچھتا ہے تو وہ بتاتی ہے کہ اس جادوگر نے مجھ پر جادو کررکھا ہے تا کہ میں ہر روز اسے کسی انسان کا شکار کرکے دوں۔ اور میں ہرروز کوئی شکار کرکے لاتی ہوں پھر وہ جادوگر سے لڑتا ہے اور جادو گر کو ماردیتا ہے۔ یہ کہانی ڈیرھ سو صفحات پر مشتمل ہے اور اتنی بری کتاب میں سوائے جھوٹ کے اور کچھ بھی نہیں۔ بس چل سو چل جھوٹ ہی جھوٹ۔
داڑھی کا مذاق بچوں کے رسالوں میں ”چاچا” کا کردار بہت دلچسپ بھی ہے اور بہت پرانا بھی۔ امتیاز علی تاج کے چاچا چھکن کے کردار اور ان کی کہانی ”چاچا چھکن نے تصویر ٹانکی” کی مقبولیت کے بعد بہت سے کردار ”چاچا” کے نام سے آنے شروع ہوئے۔ ایسے ہی ایک مقبول و معروف کردار بچوں کے دل پسند رسالے ”مجاہد” میں ”چاچا حر” کے نام سے ہوتا تھا۔ ”مجاہد” ”روشنی” میں بدلا تو یہ ”چاچا حر” اس میں بھی مقبول ترین کردار میں اب بھی موجود ہیںلیکن ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک اسلامی تنظیم کے زیرِ امارت و نگرانی نکلنے والے اس رسالے میںجو ”چاچا حر” کی تصویر تخلیق کی گئی ہے اس میں ”چاچا حر” کی عجیب و غریب داڑھی دکھائی گئی ہے تھوڑی پر چندبال ہیں جو لمبائی میں آہستہ آہستہ کم ہوتے جاتے ہیں یہ وہی اندازتضحیک ہے جو نام نہادسیکولر قسم کے لوگ جادوگروں کے کردار میں دکھاتے ہیں۔ ماہنامہ روشنی کے شمارہ مئی 2010 کے صفحہ نمبر92 پر یہ تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ رسول اللہe کی پیاری سنت داڑھی کی توہین ہے جو بے خیالی میں ہم سے سرزد ہوجاتی ہے۔ ہم محسوس کیے بغیر اس گناہ کو سرزد کیے جاتے ہیں۔
ایسے ہی کراچی ڈیفنس سے بچوں کا ایک انتہائی پیارا رسالہ ”سنترہ” شائع ہوتا ہے۔ بڑے سائز میں 48صفحات پر 4 کلر میں بہت ہی خوبصورت رسالہ ہے جس کی پرنٹنگ بھی بہت شاندار ہوتی ہے۔ عمدہ طباعت، بہترین کاغذ اور 4کلر پرنٹنگ و ڈیزائننگ میں جس قدر عمدگی ہے کہ دل باغ باغ ہوگیا اسی قدر اس میں شعائر اسلامی کی توہین دیکھ دل بجھ گیا۔ نومبر 2004 کا پرچہ میری نظر سے پہلی بار گزرا تھااور میں نے اپنی لائبریری کے سیکشن ”بچوں کے رسائل” کے لیے اسے خرید لیا تھا۔ رسالے کی ورق گردانی کرتے ہوئے صفحہ16 پر پہنچے تو ا س میں مضمون ”چچا چھکن نے تیمارداری کی” یہ معروف و مشہور ادیب امتیاز علی تاج کی کہانی تھی۔ امتیاز علی تاج تو زمانہ ہوا اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگر اب ان کے تخلیق کردہ کردار ”چچا چھکن” کی عکاسی کرتے ہیںوہ جانے کیوں چاچا چھکن کی تصویر بناتے ہوئے سنت رسولeکی توہین کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس شمارے میں بھی ایک عورت چارپائی پر بیٹھی ہے ۔اس کا بچہ بیمار چارپائی پر لیٹا ہوا ہے اور چچا چھکن پائنتی کے پاس کھڑے دکھائے گئے ہیں۔
چچا کا حلیہ عجیب دکھایا گیا ہے سر پر چھوٹی سی ٹوپی ہے۔ چھوتی سی واسٹک پہنی ہے پائوں سے ننگے ہیں۔ آنکھوں پر عینک اور چہرے پر وہی چند بالوں والی داڑھی ہے۔ اس شمارے میں ایک کہانی ”شیخونگر” ہے جس میں 4 افراد کی تصویریں بنائی گئی ہیں جن میں دو کے چہرے پر داڑھی دکھائی گئی ہے۔ ایک تصویر میں داڑھی اس قدر مضحکہ خیز بنائی گئی ہے کہ سنت رسولe کی اس قدر توہین پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جہاں مصور نے سب چیزیں عمدگی سے بناکر پیش کی وہاں تھوڑی پہ صرف لمبے سے چند بال ہی کیوں بناکر پیش کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں پاکستان میںکسی بھی شخص کے چہرے پر ایسی داڑھی نہیں ہوتی۔ پھر ہم عکاسی کرتے ہوئے بچوں کے سامنے ایسی تصویر کیوں پیش کرتے ہیں جس میں داڑھی عجیب و غریب شکل میں ہوتی ہے۔ پورے چہرے پر بال دکھانے کی بجائے صرف تھوڑی پر ہی کیوں چند بال لہرا دیے جاتے ہیں؟
کیایہ اسلام اور سنت رسولe کی توہین نہیں اور بچوں کے رسائل میں ایسی چیزیں دے کر ان کے ننھے ذہنوں میں ہم کیا امیج دے رہے ہیں۔
نصابی کتابوں کے علاوہ بچوں کے لیے جو ادب تخلیق کیا جارہا ہے اس کا بیشتر حصہ کسی صورت میں بھی ہمارے بچوں کے مطالعے کے لائق نہیں ہے۔ اگر پاکستان کے ادباء اور ماہرینِ تعلیم ازخود ایک کمیشن مقرر کرکے بچوں کے اس ادب کا جائزہ لیں جو ہرمہینے ڈھیروں میں شائع ہوتا ہے تو ان پر اور ان کے ذریعے پورے ملک پر یہ انکشاف ہوگا کہ اردو میں بچوں کے ادب نے ابھی گھٹنوں چلنا بھی نہیں سیکھا۔ بچوں کے جو شاعر ہیں انھیں یہی معلوم نہیں کہ کون سی بحر بچوں میں زیادہ مقبول ہوگی۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی نظموں میں ایسی باتیں کہیں گے جو غیر شعوری طور پر بچے کے کردار کی تعمیر کریں گی، یکسر بیکار ہے، یہی عالم نثرنگاروں کا ہے ابھی تک جنوں بھوتوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ بیشتر کتابوں میں وہی پرانے دیو ہتھیلی پر پہاڑ اٹھائے پھرتے ہیں۔
میں بچوں کی کتابوں کے ان کرداروں کا مخالف نہیں ہوں۔ اگر یہ کردار ظلم اور برائی کی نمائندگی کرتے ہیں اور آخرکار انصاف اور نیکی کی قوتوں کے ہاتھوں انھیں شکست ہوتی ہے تو انھیں بچوں کے ادب سے خارج نہیں کرنا چاہیے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ بے شمار گمنام مصنفین ان کرداروں سے بچوں کو محض ڈرانے کاکام لیتے ہیں۔ یہی عالم پریوں کا ہے۔ پری دنیا بھر کے بچوں کے ادب کا ایک نہایت پیارا کردار ہے۔ پری کا نام آتے ہی بچے کا ذہن خواب دیکھنے لگتا ہے اور جس ذہن سے خواب دیکھنے کی قوت سلب کرلی جائے وہ تخلیقی لحاظ سے ٹھس ہوکر رہ جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں کی پری ہماری کہانیوں کے لیے مصیبت بن کر رہ گئی ہے۔ اس سے وہ کام کبھی نہیںلیا گیا جولینا چاہیے۔
اس پری کے ذریعے ہم بچوں کو قرآن و حدیث کی بہت سی باتوں کی تمثیل انداز میں تعلیم دے سکتے ہیں مگر ہم نے قرآن و حدیث تو کیا اس سے کچھ بھی اخلاقی کام نہیں لیے۔وہ پری ہمارے بچوں کو نہ ہنساتی ہے نہ گدگداتی ہے، نہ ان کے دلوں میں اڑنے اور اونچا اڑنے، اور بھی اونچا اڑنے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔ نہ رحمت بن کر آتی ہے کہ صحرائوں میں پھول کھلیں اور نہ شفقت بن کر ظاہر ہوتی ہے کہ مظلوموں اور مسکینوں کے آنسو پونچھے۔ یہ پری تو بس شہزادے کی مدد سے دیو کو مارنے کے بعد شہزادے سے نکاح کرلیتی ہے اور کہانی ختم ہوجاتی ہے۔ ادب میں حقیقت پسندی کی تحریک کی برکت سے زندگی کے جیتے جاگتے کرداروں پر بچوں کی کہانیاں تعمیر کرنے کا رجحان بھی عام ہے۔ مگر صرف اس حد تک جیسے یہ کہانی بڑوں کے لیے لکھی گئی تھی، لیکن اب اس کی زبان کو سلیس بناکر بچوں کے حوالے کردیا گیا ہے کہ لو تم بھی پڑھ لو۔
ابھی پچھلے دنوں میں نے بچوں کی ایک کہانی پڑھی جس میں چند بھائی اپنے چھوٹے بھائی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اسے شادی کا لالچ دے کر لے جاتے ہیں۔ اور ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ دریا پار کرتے ہوئے وہ چھوٹے بھائی کو پانی میں گرادیں گے۔ چھوٹا بہت کائیاں ہے، وہ ان کی نیت بھانپ لیتا ہے اور کسی بہانے وہاں سے چلا آتاہے، راستے میں وہ ایک گڈریے کو اپنا بھائی سمجھ کر دریا میں ڈبو دیتے ہیں۔ یہ چھوٹا بھائی جو ایک گڈریے کی موت کا بلاواسطہ سبب بنا ہے اور جو اسے مار کر مویشیوں کا مالک بن بیٹھا ہے اس کہانی کا ہیرو ہے۔ مگر مصنف نے اسے ہوشیار ثابت کرنے کی کوشش میں بچوں کو ایک بے گناہ انسان کی موت پر قہقہے مارنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ مریضانہ ہنسی ہے، ایسی ہنسی سے ظلم میں بھی رومان نظر آنے لگتا ہے، اور میری تمنا ہے کہ ہمارے ادیب اور شاہر جب بچوں کے لیے لکھنے بیٹھیں تو اس نوع کی کمزوریوں کی زد میں نہ آئیں جو بظاہر بے ضرر کمزوریاں ہیں، مگر جو پنپ کر کٹے ہوئے سروں کے میناروں پر بھی قہقہے مارسکتی ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستان میں بچوں کے اچھے ادب کا وجود ہی نہیں ہے، بعض اداروں نے ماضی میں بھی اور حال میں بھی بچوں کی بعض نہایت وقیع کتابیں چھاپی ہیں، مگر قوم کے لاکھوں کروڑوں بچوں کے لیے اتنی سی کتابیں قطعی ناکافی ہیں۔ تمام ناشرین ِ کتب کا فرض ہے کہ جہاں وہ موٹے موٹے بیکار اور بے معنی ناول چھاپ کر ہزارہا کماتے ہیں، وہاں ایک ننھا سا تعمیری کام بھی کرلیا کریں اور ہر ضخیم ناول کی ”پخ” کی صورت میں ہی سہی، بچوں کی ایک ایسی کتاب بھی چھاپ ڈالا کریں جو ایک آزاد قوم کے بچوں کے مطالعے کے لائق ہو۔
تحریر: عبدالوارث ساجد
03214275767