قصور (ویب ڈیسک)مجرم کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ جرم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ 8بچیوں کے اغواء ،جنسی تشدد اور قتل میں ملوث تختہ دار پر لٹکائے جانے والے عمران علی نے جرم کی ابتداء قصور میں قائم قحبہ خانوں میں جانے اور غیر اخلاقی فلمیں دیکھ کر کی۔
موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتنا بڑا ایشو سامنے آنے کے بعد بھی بچوں سے بداخلاقی کے واقعات جاری ہیں۔بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے اس کے متعلق کوئی قانون سازی نہیں کی۔دوران تفتیش مجرم کادل دہلا دینے والا انکشاف۔ جرم صرف مجرموں کو پھانسی دینے سے نہیں جسم فروشی کے اڈوں،غیر اخلاقی فلموں کے مراکز،منشیات فروشوں کو نکیل ڈال کر ختم نہیں تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔قصور میں حسین خانوالہ جنسی اسکینڈل پولیس کی نااہلی،کوتاہی کا نتیجہ تھا جس نے پنجا ب حکومت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے پولیس سمیت دیگر ایجنسیوں کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنی ابھی یہ اسکینڈل اپنے انجام کو پہنچ نہیں پایا تھا کہ قصور میں معصوم بچیوں کو اغواء کے بعد جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کرکے گندگی کے ڈھیروں یا پھر زیرتعمیر مکانوں میں نعشوں کو پھینکنے کی وارداتوں نے شہر میں خوف کی فضا پیدا کر دی۔ درندے مجرم نے اس گھناؤنے فعل کو اپنی عادت بنا کر کئی معصوموں کو اپنی وحشت کا نشانہ بناکر ماؤں کی گود اجاڑ دی۔مگر پولیس روائتی تفتیش کے دائر ے سے باہر نہیں نکل سکی۔ اس دوران ننھی زینب کا والد اپنے اوپر ٹوٹ جانے والے ظلموں کے پہاڑ سے بے نیاز ہوکر اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنی اہلیہ کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے گھر روانہ ہوگئے۔
اس واقعہ سے دیگر والدین کو بھی سبق سیکھنا چاہیے اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کی خواہش پر معصوم بچیوں کو کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسی محلہ بے بدخصلت عمران نے پندرہ روز سے والدین سے نہ مل سکنے والی معصوم زینب کو والدین سے ملانے کا جھانسہ دے کر اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گیا تو اس بھیڑیے نے معصوم زینب کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر پکڑے جانے کے خوف سے دیگر بچیوں کی طرح اسے بھی قتل کرکے مبینہ طور پر دو دن نعش اپنے گھر میں چھپائے رکھنے کے بعد موقع ملنے پر باہر گندگی کے ڈھیر پر نعش پھینک کر مکاری کے ساتھ غمزدہ خاندان کے ساتھ زینب کو ڈھونڈتا پھرتا رہا مگر اس مرتبہ بڑھتے ہوئے احتجاج نے ملکی سطح پر ہر شخص کے جذبات ابھار دئیے۔ عام لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے دوران اس کے والدین اللہ تعالیٰ سے گھر میں اپنی بخشش بہتر دنیا کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے انہی دعاؤں کے صدقے سفاک مجرم نہ صرف بے نقاب ہوا بلکہ اس سے قبل معصوم بچیوں کو بھی انصاف مل گیا ۔اس ملزم کی گرفتاری کا کریڈٹ لینے والے تمام محکموں کے افسران پنجاب حکومت، احتجاجی مظاہرین اپنی جگہ درست ہیں مگر اس سے پہلے جن معصوم بچیوں کو اس درندے نے اپنی وحشت کا نشانہ بنایا ،
تب یہ تمام حکومتی ایجنسیاں اس سفاک قاتل کو کیوں نہ پکڑ سکیں۔ مجرم کی گرفتاری کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ میں آٹھ بچیوں کا مجرم ثابت ہوجانے کے بعد مجرم نے دل ہلا دینے والے انکشاف کیے کہ میں قحبہ خانوں اور غیر اخلاقی فلموں کو دیکھ کر اپنے جذبات کنٹرول نہیں کر سکتا تھا تو میں یہ گھناؤنا جرم کرتا تھا۔ مجرم کی گرفتاری پر محکموں نے ہر سطح پر انعامات دئیے حالانکہ اس مجرم کی گرفتاری میں بڑے اعلیٰ افسران کی محنت بھی شامل ہے۔ شرمناک امر یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر جرائم کے خاتمہ کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ضلعی سربراہان کے علاوہ پنجاب کے اعلیٰ افسران کے علم میں آنے کے باجوود قحبہ خانوں، غیر اخلاقی فلموں کے مراکز اور منشیات فروشوں کے خاتمہ کے لیے کوئی خاطرہ خواہ عملی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا درندہ مجرم تو پھانسی کے بعد اپنے انجام کو پہنچ گیا کیا ہم نے ایسے بھیڑیوں سے اپنی بیٹیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا۔جرائم کی جنم گاہوں کے خلاف نہ صرف حکومتی اداروں بلکہ عوام کو بھی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے۔ بااثر لوگوں کی آشیر باد سے کھلنے والے جرائم کے اڈوں کے خلاف جہاد کرنے والوں کو بے یارو مدد گار چھوڑنے کی بجائے ان کو حکومتی ادارے سیکورٹی فراہم کریں اور مجرموں کی حوصلہ شکنی سے قانون کو بھی حرکت میں آنا چاہیے۔