بہاول نگر واقعہ
رات سے سوشل میڈیا پر ایک بحث برپا ہے ائیے حقیقت پر ایک نظر ڈالتے ہیں
یہ واقعہ ڈسٹرکٹ بہاول نگر کے ایک چھوٹے سے شہر منڈی مدرسہ کے پاس ایک گاؤں چک سرکاری میں پیش ایا اور میں چک سرکاری کا رہائشی ہوں … پنجاب پولیس اپنے معمول کے گشت پر تھی تلاشی کے دوران ایک سوتریہ برادری کے لڑکے کے پاس پسٹل برامد ہوتا ہے … ایس ایچ او محمد رضوان اس کو پکڑ کے گاڑی میں بٹھاتا ہے اور پوچھ گچھ شروع ہو جاتی ہے کہ پسٹل تمہارے پاس کیسے ایا لڑکا بتاتا ہے میں نے پسٹل رفاقت چوہری سے لیا ہے …
تو چلیے اپ کو بتاتے ہیں رفاقت چودری کون ہے معاملے کی جڑ رفاقت چودری ہے رفاقت چوہدری انور چوہدری کا بیٹا ہے اور ایس ایس جی کمانڈو محمد خلیل اور محمد ادریس کا بھائی ہے… رفاقت کے دونوں بھائی فوج میں ہیں… رفاقت چوہدری چک سرکاری کا سدھو موسے والا ہے ائے دن اس کا کسی کے ساتھ جھگڑا لڑائی ہوتی رہتی ہے تھانے میں اس کا انا جانا رہتا ہے اور چند ایک ایف ائی ار بھی اس پر ہیں ایسے سمجھ لیں کہ یہ چک سرکاری کا ایک شیطان ہے..
چلیے بات کو اگے بڑھاتے ہیں ایس ایچ او رضوان سوتریہ برادری کے لڑکے کو لے کے رفاقت کے گھر چلا جاتا ہے رضوان کے ساتھ پانچ اہلکار اور بھی ہوتے ہیں دروازے پر دستک دی جاتی ہے رفاقت باہر اتا ہے پولیس کے ساتھ رفاقت کے منہ ماری ہو جاتی ہے عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ایس ایس جی کمانڈو محمد خلیل اور محمد ادریس بھی گھر ہوتے ہیں
لڑائی یہاں سے بڑھ جاتی ہے پولیس رفاقت کو ساتھ لے جانے پہ بضد ہوتی ہےsho رضوان کافی بدتمیزی بھی کرتا ہے ادریس بتاتا ہے میں ایس ایس جی کا کمانڈو ہوں تم حد میں رہو تفیش اور پوچھ گچھ کے لیے لیکن خلیل اور ادریس معاملے میں پڑ جاتے ہیں اپ سمجھ سکتے ہیں خلائی مخلوق جس کے گھر میں ہو کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا بھائی پولیس لے جائے ایس ایس جی کمانڈوز کی ٹریننگ کے اگے ایس ایچ او کیا چیز تھا اور اہلکار کیا چیز تھے ساتھ ان کے تین بھائی اور بھی گھر میں موجود تھے انہوں نے پولیس کی گھر میں خوب ٹھکائی کی اور حقائق کے برعکس الٹا اپنی فیملی کو انوالو کر کے ویڈیو بنا لی کہ ہماری عورتوں کے ساتھ ایس ایچ او رضوان نے ظلم کیا ہے
اپ خود سمجھدار ہیں جہاں پہ دو ایس ایس جی کمانڈوز موجود ہوں ساتھ ان کے تین بھائی موجود ہوں ایک باپ موجود ہو پولیس کیا کر سکتی تھی… لوگوں نے 15 پ کالز کرنا شروع کر دی .. بہاول نگر کی پولیس چشتیاں کی پولیس کی 12 گاڑیاں فوری موقع پر پہنچ کے ایس ایچ او کو یہاں سے چھڑواتی ہیں…. محمد رضوان تھانے میں پہنچ کے اپنی نفری کو پھر سے ساتھ لیتا ہے اور ان کے گھر پہ دعوی بول دیتا ہے اپنا بدلہ لینے کے لیے یا اپ کچھ بھی کہہ لیں قانون پہ عمل درامد کہہ لیں نفری کے ساتھ پہنچ کے رفاقت کو گرفتار کرتا ہے ادریس اور خلیل کو گرفتار کرتا ہے رفاقت اور اس کا بھائی عبدالقدوس بھاگ جاتے ہیں خلیل اور ادریس ہاتھ میں ا جاتے ہیں رضوان ان کو لے جا کے ان کی خوب ٹھکائی کرتا ہے اور مجسٹریٹ کے پاس قانون کے مطابق پیش بھی نہیں کرتا…
پیچھے سے خلیل اور ادریس کے بھائی اپنی والدہ کو لے کے بہاول نگر چھاؤنی پہنچ جاتے ہیں اتنی دیر میں سوشل میڈیا پر ان کی ایک من گھڑ بنائی ویڈیو بھی وائرل ہو جاتی… جس پر فوج حرکت میں اتی ہے فوج ادریس اور خلیل کو فوری چھڑوا لیتی ہے اور ساتھ میں ایس ایچ او سمیت پورے عملے کو منڈی مدرسہ کے عملے کو معطل کروا دیتی ہے… ایس ایچ او رضوان پر ایف ائی ار درج ہوتی ہے اسے بہاول نگر تھانہ بی ڈویژن میں دے دیا جاتا ہے تھانہ بی ڈویژن میں متعلقہ ایس ایچ او اپنا کولیگ سمجھ کے اس کو حوالات میں نہیں دیتا بلکہ باہر بٹھا دیتا ہے فوج کو پھر سے اس بات کی خبر لگ جاتی ہے فوج بی ڈویژن تھانے پہ دعوی بول دیتی ہے عید والے دن اور ایس ایچ او رضوان کی بھی ٹھکائی کرتی ہے ساتھ میں دوسرے متعلقہ sho کی ٹھکائی کرتی ہے فوج چلی جاتی ہے پولیس والے رضوان کو لے کے ڈی ایچ کیو ہاسپٹل چلے جاتے ہیں پتہ نہیں پھر ان کے ذہن میں کیا اتا ہے فوج کی دس گاڑیاں ڈی ایچ کیو ہاسپٹل پھر چلی جاتی ہیں ڈی ایچ کیو پہ قبضہ کر لیتے ہی.. تاکہ کوئی ویڈیو نہ بنا سکے
معاملہ ہائی لیول پہ پہنچتا ہے اب کل رات پولیس اور فوج کی اپس میں صلح ہو جاتی ہے دونوں طرف چھترول ہو چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ رضوان بحال ہوتا ہے یا نہیں
یہ ہے جی سارا معاملہ فضول کی باتوں پر کان نہ دھریں میں ان چیزوں کا چشم دید گواہ ہوں
بندہ نہ معلوم
معلوم ہونے پر میری بھی ٹھکائی کر دی جائے گی🙄
رپورٹ نا معلوم شخص