شرابی حاکم بہلول دانا سے: ”جناب! مجھے بتائیں کہ اگر میں کھجوریں کھاؤں تو آپ کو کوئی اعتراض ہے…؟” بہلول دانا: ”بالکل کوئی اعتراض نہیں”… شرابی: ” اگر اس کے ساتھ کچھ جڑی بوٹیاں کھا لوں؟ بہلول دانا: ” کوئی رکاوٹ نہیں”…. شرابی: ”اور اگر میں ان میں پانی شامل کر لوں؟” بہلول دانا: ”بڑے شوق سے پیو….” شرابی: ”جب یہ ساری چیزیں جائز اور حلال ہیں تو پھر آپ شراب کو کیوں حرام کہتے ہیں…. حالانکہ اس میں یہی چیزیں تو ہیں جن کے کھانے اور پینے کی اجازت آپ دے رہے ہیں. یعنی کھجوریں, پانی اور جڑی بوٹیاں….!” بہلول دانا شرابی سے: ”اگر تمہارے اوپر پانی پھینکا جائے تو اس پر تمہیں کوئی اعتراض ہو گا…؟”
شرابی: ”ہرگز نہیں, پانی سے کیا فرق پڑتا ہے…!” بہلول دانا: ”اچھا, اگر اس پانی میں مٹی گھول دی جائے تو تم اس سے مر جاؤ گے….؟” شرابی: ”جناب..! مٹی سے میں نے کسی کو مرتے ہوئے نہیں دیکھا…” بہلول دانا: ”اگر میں مٹی اور پانی لوں اور ان کو گوندھ کر ایک اینٹ بنا لوں اور اسے خشک کر کے تمہیں دے ماروں تو کیا ایسا کرنے پر تمہیں کوئی اعتراض ہے….؟” شرابی: ”جناب…! اس سے تو آپ مجھے قتل کر دیں گے….” بہلول دانا نے کہا: ” شراب کا بھی یہی حال ہے…” اللہ پاک نے ہم کو جس بات سے بھی روکا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہے…. ہم کو اپنی طرف سے تاویلیں نہیں گھڑنی چاہیئں بلکہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے…
بہلول مجذوب رحمتہ اللہ علیہ ہارون الرشید کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے۔ ہارون الرشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی جذب کے عالم میں وہ پتے کی باتیں بھی کہہ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بہلول مجذوب ہارون الرشید کے پاس پہنچے ۔ ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھاکردی۔ مزاحا کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا۔ بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا ۔ بہلول مجذوب عیادت کے لئے پہنچے اورسلام کے بعد پوچھا۔ امیر المومنین کیا حال ہے؟ امیر المومنین نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ کہاں کا سفر؟ جواب دیا۔ آخرت کا۔ بہلول نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔ بہلول نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیں آئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اورساتھ ساتھ کون جائے گا؟ جواب دیا۔ آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جارہا ہوں۔ بہلول مجذوب بولا۔ اچھا تو جہاں جا رہے ہیں وہاں رہنے کے لیے کچھ تیاری کی یا نہیں ۔ ہارون الرشید نے جواب نہیں کچھ بھی تو پاس نہیں ہے ، خالی دامن ہوں ۔ بہلول مجذوب بولے اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے۔ آپ نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو روپڑے اور کہا۔ بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگرآج پتہ چلا ۔ کہ تمہارے جیسا کوئی عقل مند نہیں۔
ہم اپنے بارے میں سوچیں کہ ہم عقل مند ہیں یا بے وقوف