کہا جاتا ہے کہ ہارون الرشید کے دور خلافت میں بہلول دانا ایک درویش، کئی صاحبان عقل کو دریائے حیرت میں ڈبکیاں لگواتا رہتا تھا۔ ایک دن اس فقیر کی خدمت میں وقت کے بہت بڑے عالم حضرت جنید بغدادی تشریف لائے اور عرض کیا حضور کچھ عطا فرمائیے۔ بہلول زمین پہ لکیریں کھینچنے میں مصروف تھا۔ پوچھا کہ ”جنید، یہ بتلاو کیا تمہیں کھانا کھانے کے آداب آتے ہیں؟ ”جواب ملا، جی قبلہ۔ ۔پہلے ہاتھ دھوتا ہوں۔ بسم اللہ پڑھ کے کھانا شروع کرتا ہوں۔ سنت کے مطابق بیٹھ کے کھاتا ہوں۔ بہلول نے فرمایا ”آپ کو ابھی تک کھانے کے آداب کا ہی علم نہیں ہے۔”
پھر سوال کیا کہ ”کیا گفتگو کے آداب جانتے ہو؟جواب ملا ”جی قبلہ آہستہ اور مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق گفتگو کرتا ہوں۔جامع اور مختصر گفتگو کرتا ہوں۔ بہلول بولے ”تمہیں تو بات کرنا بھی نہیں آتی”
جنید بغدادی رح نے عرض کیا ”حضور آپ سے یہی سیکھنے تو آیا ہوں۔ بہلول نے تیسری بار دریافت کیا کہ ”اے جنید کیا تمہیں نیند کے آداب آتے ہیں؟جنید نے جواب دیا ”جی داہنی کروٹ پہ لیٹتاہوں اور مسنون دعا پڑھ کے سوتا ہوں-”
بہلول نے فرمایا ”جنید تمہیں تو سونے کے آداب بھی نہیں آتے۔ ”جنید بغدادی نے ہاتھ باندھ کے دست بستہ عرض کیا” قبلہ مجھے روشنی عطا کیجیئے”۔
اب بہلول نے حکمت کے موتی عطا کئے اور ارشاد فرمایا ” آپ نے مجھے تمام فروعات اور آداب بتائے ہیں۔ مگر یاد رکھو یہ نا کافی ہیں ۔ کھانا کھاتے ہوئے یہ دھیان رکھنا،
” کھانا حلال ہوتا ہے یا حرام ”۔
اور گفتگو فقط رضائے الہی کے لئے کرنی چاہئیے۔ اور نیند سے پہلے سینہ بے کینہ کر کے، سب کو معافی دے کے سونا چاہیئے۔ خدا نگہدار ہو آپ کا۔” آج کے دور میں بھی اگر ہمیں نشست و برخاست اور گفتگو کے آداب آ جائیں تو شاید کتابوں کے قبرستان سے مہرو محبت کے الفاظ واپس آ جائیں گے۔سینوں میں نفرتوں کے الاو کو کم کرنا ہے تب جا کر امن کا قیام ممکن ہے۔دوسروں کو تبدیل کرنے کی بجائے خود میں تبدیلی لانی ہے۔