تحریر : شہزاد حسین بھٹی
برصغیر پاک و ہند میں بیساکھی کے تہوار کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔دیسی مہینہ بیساکھ بہار کے موسم کی علامت ہے اس موسم میں برصغیر پاک و ہند کے کسان اپنی گندم کی فصل کی کٹائی کا آغاز کرتے ہیں اور اچھی فصل کے ہونے پر خوشی اور شادمانی کے اظہار کے لیئے روائیتی میلوں ٹھیلوں اور کھیلوں کا انعقاد کرتے ہیں اور طرح طرح کے پکوان تیار کرکے دوستوں ،عزیزوںاور مہمانوں کے ساتھ پیار ،محبت اور عہدو پیماں کا اظہار کرتے ہیں۔بیساکھی کا تہوار سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔سکھ مذہب کی بنیا د 1499ء میں بابا گورونانک نے انڈین پنجاب میں رکھی اور اس مذہب میں دس گرو گزرے ہیں ۔ہر ایک کی تعلیمات الگ ہیں ۔لیکن سب سے زیادہ پیروکار دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ کے ہیں ۔سکھوں کی مذہبی کتاب “گرنتھ صاحب”کے دس باب ہیں اور ہر باب میں ایک گرو کی تعلیما ت بیان کی گئی ہیں ۔روایت کے مطا بق 1699 ء میں دسویں اور آخری گرو گو بند سنگھ نے “پنتھ خالصہ”کی بنیاد رکھی تھی ۔اور اس دن سکھوں کو مخصو ص لباس کے ساتھ پانچ اشیاء ہر وقت اپنے ساتھ رکھنے کی تاکید کی گئی ۔جس میں کیس ،کرپان ،کاچھا ،کڑااور کنگا شامل ہیں سکھ عقیدے کے مطابق خدا ایک ہے۔
ہر سال اپریل کے پہلے ہفتے میں سکھ یاتری ہزاروں کی تعداد پاکستان، انڈیا اور دنیا بھر سے گوردوارہ ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب حسن ابدال آتے ہیں جسکے لیئے حکومت پاکستان ننکانہ صاحب اور حسن ابدال کے لیئے مکمل سیکورٹی اور ٹرانسپورٹ خصو صا ًخصو صی ٹرینوں کا بندوبست کرتی ہے ۔سکھ یاتری اپنی مذہبی رسومات مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ ہر سال گیارہ سے تیرہ اپریل کو گوردوارہ پنجہ صاحب حسن ابدال میں ادا کرتے ہیں۔بیساکھی کے دن گوردوارہ پنجہ صاحب میں مذہبی تقریبات کا آغاز “گرنتھ صاحب”کے پارٹ پڑھنے سے ہوتا ہے ۔مذہبی رسومات کے دوران یاتریوں کی توجہ گوردوارے کے درمیان واقع تالاب کی جانب مبذول رہتی ہے جہاں سکھ یاتری اشنان کرتے ہیں ۔سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے انکے تمام کردہ گناہ دھل جاتے ہیں اوروہ گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔اس تالاب کے درمیان واقع ایک پتھر پر ہاتھ کا نشان کندہ ہے جسکے بارے میں سکھوں کے نزدیک عا م روایت ہے کہ یہ پتھر حضرت بابا ولی کندھاری نے پہاڑی سے پھینکا تھا اور بابا گورونانک نے ہاتھ سے روکا تھا جسکی وجہ سے ہاتھ کا نشان اس پتھرپر کندہ ہو گیا ۔جبکہ محقیقن اور مورخین کے خیال کے مطابق اس پتھر کو ٹیکسلا کے ایک ماہر سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے تراشاتھا۔گوردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں اور کینوں میں لے جاتے ہیںتاکہ جو زائرین یاترہ پر نہ آسکے وہ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔
تقریباب کے آخری دن یعنی تیرہ اپریل کو بھوگ کی رسم اد ا کی جاتی ہے ۔سکھ یاتری بابا گورو نانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ گرنتھ صاحب کے پاٹ پڑھتے اور سنتے ہیں ۔گوردوارے کے اندر پرسادپکائے جاتے ہیںاور یاتریوں کو تقسیم کیئے جاتے ہیں ۔اس مقصد کے لیئے سکھ مر د اور خواتین عبادت سمجھ کر یہ کام سرانجام دیتے ہیں ۔گوردوارے کے انتظام و انصرام کے لیئے کثیر تعداد میں چندے بھی دیتے ہیں ۔گوردوارے کے اندر اور باہر سکھ یاتریوں کو ٹھہرانے کے لیے رہائشی بندوبست بھی کئے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیئے گوردوارے کے نزدیک سرکاری سکولوں کو خالی کرایا جاتاہے۔
حکومت پاکستان سکھ یاتریوں کی سہولت کے لیئے ہر سال خاطر خواہ انتظامات کرتی ہے ۔گردوارے کے نزدیک ہسپتال ،سکول ،بنک ،پوسٹ آفس اور فون بوتھوںسمیت دیگر انتظامات کرتی ہے تاکہ سکھ یاتریوں اپنی مذہبی رسومات مکمل آزادی کے ساتھ ادا کریں اور کسی یاتری کو کوئی تکلیف یا دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔یہی وجہ ہے کہ سیکورٹی کے فول پروف انتظامات ہونے کی وجہ سے سکھ یاتری آزادانہ طور پر زیارات اور خریدو فروخت کرتے ہیں ۔وزرات مذہبی امور، محکمہ اوقاف ،سکھ اوقاف پراپرٹی بورڈ اور گوردوارہ پر بندھک کمیٹی پاکستان میں موجود گردواروں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔تیرہ اپریل کو اختتامی رسومات کے موقع پر عموماً چیرمین اوقاف بورڈیا وزیر مذہبی امور مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرتے ہیں اور سکھ یاتریوں کے مسائل اور انکے حل کے حوالے سے انکو اعتماد میں لیتے ہیں۔
بہت سے سکھ یاتری اپنے ساتھ مختلف اشیاء خصوصاً کپٹرا ،سلک اور ساڑیاں وغیرہ لاتے ہیں جنہیں مقامی دکاندار اور گاہک خریدتے ہیں اسطرح سکھ یاتری بھی پاکستان سے خریدو فروخت کرتے ہیں اپنی مذہبی تقریبات سے فارغ ہو کر سکھ یاتری لاہور اور دیگر شہروں کا دورہ بھی کرتے ہیں اور اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیںکہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے اور حکومت پاکستان جس انداز میں ان کے گردواروں کی حفاظت کر تی ہے وہ قابل تحسین و تشکر ہے ۔اکثر سکھ یاتری یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی جو تصویر انڈیا میں دیکھائی جاتی ہے وہ اسکے بالکل برعکس ہے یہاں مکمل آزادی ہے اور یہاں کے مقامی افراد انہیں مہمان کا درجہ دیتے ہیں
جبکہ اس کے برعکس انڈیا میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں خصوصاً بابری مسجد کوجس انداز میں شہید کیا گیااس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔بابری مسجد کو مودی سرکار نے جس انداز میں شہید کیا وہ اس بات کی شاہدہے کہ انڈیا میں اقلیتوں کو کتنے حقوق حاصل ہیںاور انکے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اور مذہبی آزادی واویلاکرنے اور سیکولر کہلانے والا ملک بھارت اقلیتوں کو کتنی اہمیت دیتاہے ۔اسلام اقلیتوں کو مکمل آزادی دیتاہے اور بیساکھی کا تہوار اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مظہر ہے۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی