تحریر : میر افسر امان
جیسے آرمی پبلک اسکول پر امریکا کے پیدا کردہ طالبان نے حملہ کیا تھا اسی طرح باجوڑ کے دینی مدرسے پر امریکا نے بھی ظلم کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے ڈرون حملہ کیا تھا اور ٨٠سے زائد بے گناہ طلبا شہید کر کے اپنی سفاکیت کا فرعونی مظاہرہ کیا تھا۔ معلوم تاریخ میںایسا تو کسی جابر حکومت نے اپنے غلاموں سے بھی ظلم نہیں کیا ہو گا جیسے امریکا نے کیا تھا۔ کمانڈوڈکٹیٹر مشرف نے ایک فون پر سرنڈر ہو کر امریکا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے اور پاکستانیوں پر ظلم کی کھلی چھٹی دے دی تھی ۔ باجوڑ کے مدرسے پر امریکی ڈرون حملہ اُ س وقت کی بات ہے جب امریکا ڈکٹیٹر مشرف سے پیشگی اجازت لیتا تھا اور پھر ڈرون حملہ کرتا تھا۔اس کامطلب ہوا کہ امریکا کے ساتھ ساتھ ڈکٹیٹر مشرف نے اس بین الاقوامی جرم میں مقامی سہولت کا ر کا کردار ادا کیا تھا۔ جب آرمی پبلک اسکول کے بچوں کے ساتھ طالبان کے ظلم کے خلاف پورے ملک میں پروگرام ہو رہے تھے۔ ١٦ دسمبر کو مظلوم پھولوں کے والدین اس پروگرام میں شریک ہو کر اپنے جذبات اور دکھوںکا اظہار کررہے تھے تو باجوڑ کے دینی مدرسے میں ناحق قتل کئے گئے بچوں کے والدین کی آنکھیں بھی پُر نم تھیں مگر ان کی پُر نم آنکھیں پاکستان میں کسی کو نظر نہیں آ رہی تھیں کیونکہ وہ غریب ہیں۔
ان کی آنکھیںصرف اللہ کے حضور فریاد کناں تھیں کہ اے اللہ ہمارے بچوں کو کس گناہ کے بدلے امریکا نے سفاکیت سے شہید کیا تھا۔اُن کی آنکھیں پاکستان کے عوام کی طرف دیکھ رہیں تھیں کہ ہمارے مظلوم بچوں کے لیے کوئی ترانہ گایا جائے گا کوئی دکھ کا اظہار کیا جائے گا۔ان کو کیا معلوم کہ کچھ اپنوں نے اور کچھ غیروں نے مل کر پاکستان بلکہ دنیاکے دینی لوگوں کو بے توقیر کر دیا ہے پھر آپ کے بچوں کے لیے کون ترانے گائے اور کون دکھ کااظہار کرے گا؟ڈکٹیٹر مشرف نے تو قوم کی ہزاروں بیٹیوں کو اسلام آباد کے مدرسہ حفصہ میں اپنے آقا امریکا کے کہنے پر فاسفورس بم مار کر شہید کر دیا تھا جو بعض لوگوں کے مطابق اسی ظلم کی وجہ سے خود کش بمبا ر پیداہوئے تھے۔ اس ظلم کی وجہ سے ڈکٹیٹر مشرف پر اب بھی مظلوم بچیوں کے انصاف کے حصول کے لئے مقدمہ چل رہا ہے۔
دینی مدرسوں کی مظلومیت کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلمان سوسائٹی میں مدرسہ ایک بنیادی اکائی ہوا کرتاتھا وہاں سے مسلمان بچے بچیاںدین کی تعلیم حاصل کر کے نکلتے تھے اور مسلمانوں کے معاشرے کے اندراُن کی قدر و منزلت بھی تھی ۔برصغیر پر انگریزوں نے قبضہ کیا مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا لہٰذا اُنہوں نے مسلمانوں کو برباد کرنے اور دبا کر رکھنے کی پالیسی کے تحت مدرسے اور عام تعلیم میں تضاد پیدا کیا لارڈ مکالے نے ایسی تعلیمی پالیسیاں بنائیں کہ مسلمانوں کے اند ر ملا اور مسٹر کی تقسیم پیدا ہو۔ مسٹر والی تعلیم سے نوکریاں ملنا شروع ہو گئیں تو مسلمانوں نے بھی دینی مدرسے کی طرف رجحان کم کر دیا اور اپنے بچوں کو انگریز کے نظام تعلیم میں داخل کیا بلا آخر نظام حکومت انگریز کی مرضی کے مطابق دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔انگریزی تعلیم والوں کو حکومت کی طرف سے مراعات بھی ملتی تھیں۔ دینی تعلیم کو اس وقت کے علما نے سنبھال لیا۔
دینی مدرسے میں غریب مسلمانوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ انگریزدینی مدرسوں کے بچوں کو نیچ کام والے درجے میں رکھا تھا یعنی موچی،ترکھان وغیرہ۔ ان کو نہ بس اور ریل کے کرایے میں رعایت ملے نہ ہی نوکری ملے۔ دینی مدرسے کے طالب علم کو انگریز حکومت سے کوئی بھی مدد نہیں ملتی تھی۔ غریب ترین مسلمانوںکے بچے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور باقی انگریزی اسکولوں میں پڑھتے تھے۔مدرسے کے بچے زکوٰة، خیرات اور صدقات کے حصول پر ہی پلتے اور پڑھتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہی نظام چل رہا ہے ۔باجوڑ مدرسے کے بچے بھی اسی طرح تعلیم حاصل کر ر ہے تھے۔ اس کے علاوہ اُن بچوں نے نہ کوئی امریکا کے خلاف غیر قانونی حرکت کی تھی اورنہ ہی کسی قسم کی دہشت گردی کی تھی وہ بے بس بچے تھے وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ جو بچے محلے کے لوگوں سے ،کہیں پوری روٹی اور کہیں سے آدھی روٹی اور سالن پر گزارا کرتے ہوں اس سے کسی غیر قانونی کام کی تواقع بھی نہیں کی جا سکتی ۔کیا یہ سب حالات امریکا کی نظروں سے اوجل تھے نہیں جی ،امریکا کو سیٹ لائٹ نظام سے زمین پر چلنے والے کیڑے مکوڑے بھی صاف صاف نظر آتے ہیں مدرسے میں پڑھنے والے طلبا نظر نہ آئیں
ہونگے۔ اصل میں امریکا نے دینی حلقوں پرخوف کی فضا قائم کرنے تھی اور سزا دینی تھی جو اس نے دی۔ کیا قبائلی علاقوں میں آئے روز کے ڈرون حملوں سے بے گناہ بچے بوڑھے اور مسلمان خواتین ہلاک ہوتے رہے یہ تو آزاد دنیا بھی گائے بگائے کہتی رہتی ہے۔ کیا پاکستان کی امریکی غلام حکومتیں امریکا سے ان بے گنائوں کے لیے انصاف مانگ سکتیں ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ بلکہ یہ بات اخبارات میں آئی تھی کہ پیپلز پارٹی حکومت میں صدر زرداری صاحب نے امریکیوں کو کہا تھا کہ ڈرون حملوں سے میں تو کوئی بھی پریشان نہیں ہوتا آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کا بیان بھی اخبارات کی زینت بنا تھا کہ آپ ڈرون حملے کرتے رہیں ہم پارلیمنٹ میں مصنوعی شور کرتے رہیں گے جب حکمرانوں کے ایسے بیانات ریکارڈ پرہوں تو پھر باجوڑ کے معصوم بچوں کے سفاکیت سے قتل عام پر کون گیت گائے گا اور کون دکھ کا اظہار کرے گا۔
ان بے گناہ بچوںکے والدین نے تو پہلے یہی صبر کر رکھا اور آئندہ بھی صبر ہی کرتے رہیں گے کہ ایک وقت آئے گا کہ ہر انسان کے ذرا برابر اچھے اور ذرا برابر برے کام کا حساب لیا جائے گا اور ظالم حکمرانوں کا کڑا امتحان لیا جائے گا اور اس وقت شاید اللہ ان ظالموں سے یہ نہیں کہے گا کہ تم نے ان مظلوموں،بے گناہ، غریب اور نادار بچوں جو محلے کے گھر گھر سے روٹی اور سالن اکٹھا کر کے کھانے والے تھے ،پر کیوں ظلم کیا تھا؟ بلکہ ان مظلوم بچوں سے پوچھے گا کہ تمھیں کیوں بے گناہ قتل کیا گیا تھا۔ کیا یہ ظالم اس سفاکیت کا جواب دینے کے قابل ہونگے؟نہیں ہونگے بل لکل نہیں ہونگے۔اس لئے ہم ان مظلوم بچوں کے والدین سے کہتے ہیں کہ وہ ایسا ہی صبر کریں جیسا وہ ٢٠٠٧ء سے کرتے آئے ہیں اس غلامی کے دور میں ان کی کوئی بھی دادرسی نہیں کرے گا کیونکہ دنیا کا یہی چلن ازل سے چلا آرہا ہے اسی لیے تو اللہ نے قیامت کا دن رکھا کہ جن کو دنیا کے جابر لوگ انصاف نہ دے سکیں ان کو قیامت کے دن انصاف مہیا کیا جائے اور ظالموں کو ان کے کیے کی سز دی جائے گی ۔وہیں ان مظلوموں کے لیے ترانے پڑھے جائیں وہیں ان کے دکھوں کا مداوا ہو گا ان شا ء اللہ۔
تحریر : میر افسر امان