تحریر: امتیاز علی شاکر
بے شک اللہ تعالیٰ نے کائنات کو توازن کے ساتھ قائم کیاہے،جب تک معاشرے میں توازن قائم رہتاہے تب تک خوشحالی کے درکھلے رہتے ہیں،کائنات کا توازن قائم رکھناانسان کے بس کی بات نہیں یہ کام صرف اورصرف خالق حقیقی کے اختیار میں ہے،اللہ تعالیٰ نے اپنے نائب کودرست راستے اورمعاشرتی توازن کے قیام کا علم اپنے انبیاء اکرام کے ذریعے فراہم فرمایا،اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ۖاوراُن کی اُمت جوباقی تمام امتوں سے بہترہے کیلئے عالمگیرمذہب اسلام پسند فرمای اتاکہ خالق کی کائنات میں توازن برقرار رکھنے میں انسان کو آسانی رہے ،اسلام معاشرے میں توازن قائم رکھنے والاواحد ضابطہ حیات ہے،بلاامتیازاحتساب،عدل وانصاف اوروسائل کی درست تقسیم انسانی معاشرے کی اکائیوں کو جوڑے رکھنے کیلئے انتہائی لازم ہیں،ادائیگی فرائض کے ذریعے دوسروں کے حقوق اُن کے طلب کرنے سے قبل ہی حاصل ہوجاتے ہیں ،کسی معاشرے کی کامیابی یاناکامی کادارومدارقوانین اوراُن پرعمل پیراہونے میں ہوتاہے،
درست قوانین پرعمل پیراہونے والے معاشرے کامیاب جبکہ باطل قوانین پرعمل پیرایادرست قوانین پرعمل نہ کرنے والے معاشرے ہمیشہ رسوائی کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں۔قابل عمل درست قوانین وہی ہوسکتے ہیںجوتمام شعبہ زندگی میں مددگارہوںتمام انسانوں کوبلاامتیاز بنیادی حقوق کی فراہمی ممکن بنائیں،جوسب کے عزت،جان ومال کاتحفظ یقینی بناسکیں ،جواقلیتوں کوساتھ لے کرچلیں اوراُن کومذہب ،فرقے ،قبیلے اوررنگ ونسل کی تفریق کیے بغیرآزاداورخودمختارندگی گزارنے میں مددگارہوں۔ماضی وحال کے درست حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے
تمام ترتحقیقات ،مطالعہ اورتلاش کے بعد دنیامذہب اسلام کے مرتب کردہ قوانین کودرست،قابل عمل اورانسانی حقوق کے پاسبان تسلیم کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے(مفہوم)’اور ہم نے آپۖ کو تمام جہانوں اورزمانوںکیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے’ آنحضورۖ کا مشن کسی ایک شعبہ زندگی کی اصلاح تک محدود نہیں بلکہ احکامات الٰہی کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں کی تطہیر و تعمیر کرنا ہے۔ آپۖ کی تحریک ہمہ گیر ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی پرانتہائی گہرے اثرات مرتب کر کے انسانیت کے تصور میں انقلاب برپا کر دیا۔تاریخ بتاتی ہے کہ جزیرہ نمائے عرب ،قبائیلی جنگوں،سیاسی انتشار اور لا مرکزیت کا شکار تھا۔ جنوبی عرب کے زرخیز علاقوں پر ایرانیوں کا قبضہ تھا جبکہ شمالی عرب رومیوں کے قبضے میںتھا۔ ایرانی اور رومی اہل عرب کو محکوم اور حقیر سمجھتے تھے۔ آپۖ نے بکھرے ہوئے قبائل اور ہمیشہ لڑنے والی قوم کو متحد کر کے اسلام جھنڈے تلے جمع کر دیا۔
مزید برآں مدینہ منورہ میں اسلامی دولتِ مشترکہ قائم کر کے مدینہ منورہ کو مرکزی حیثیت دے کر ان بدوی قبائل کو ایک حکومت کے تحت متحد کر دیا اور ان کو نظم و ضبط اور اخوت و مساوات کا خوگر بنا کر ایران اور روم کی ترقی یافتہ اور عظیم قوموں کے دوش بدوش لا کھڑا کیا۔ اُس وقت عرب معاشرہ اقتصادی بدحالی کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا جس کی اہم وجہ غلط قوانین اور سودی نظام تھا۔ سرکاردوعالم ۖنے سودی نظام کو حرام ٹھہرا کر ذکواة، صدقہ اور فطرانہ کے احکامات صادرفرمائے۔ آپۖنے لوگوں میںسماجی بہبود کا جذبہ ابھار کر دولت کو گردش میں لانے کا حقیقی انتظام کیا۔آج دنیا میں دو معاشی نظام چل رہے ہیں، ایک سرمایہ داری نظام اور دوسرا کمیونزم۔ سرمایہ داری نظام کا مزاج اِس قسم کا ہے کہ اْس سے چند ہاتھوں میں ہی دولت جمع ہو جاتی اور دوسری طرف تمام قوم بھوک وافلاس کی دلدل میں چلی جاتی ہے۔ اسی نظام کے ردعمل سے دوسرا نظام معاشی نظام اشتراکیت ظاہر ہْوا جس کا اصول یہ ہے
کہ کوئی شخص اپنے کمائے ہوئے مال کا مالک نہیں سب دولت حکومت کی ہے وہ تمام لوگوں کو ضروریات کے مطابق دے گی۔ یہ دونوں نظریات افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ پیارے آقاۖ نے اْس نظام کی بنیاد رکھی جس میں محنت کی توقیر اور عزت ہے۔ ملکیت کو بھی جائز قرار دیا ہے تاکہ محنت کا جذبہ زندہ رہے۔ تقسیم دولت کیلئے ذکواة جیسا حکمتِ بالغہ پر مبنی قانون بنا دیا تاکہ ارتکازِ دولت کی بجائے انتشارِ دولت عمل میں لائی جائے جس سے معاشی اثرات کے علاوہ معاشرتی اثرات بھی مرتب ہوں۔ امراء اور غرباء کے تعلقات خوشگوار رہیں، دونوں طبقوں کے باہمی اتحاد اور اتفاق و مواخات کی وجہ سے ملک اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رہے۔ سیرت و اخلاق کی اصلاح کے بغیر معاشرتی اصلاحات عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ آپ ۖ نے سیرت و اخلاق کی اصلاح کو مقدم سمجھا اور اْن بْرائیوں کا جو عرب معاشرے کو فسق و فجور اور بے راہ روی کی طرف لے جا رہی تھیں قلع قمع کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ، معاشرے میں اجتماعیت کی سوچ پیدا فرمائی، نسلی اور طبقاتی امتیاز کی وہ تمام دیواریں گرا دیں جو معاشرتی ترقی،اتحاد اور خوشحالی کی راہ میں حائل تھیں۔ مسلم معاشرے کی اس سماجی اصلاح کے پیچھے دنیائے عالم کو وہ تاریخی سبق ملا کہ معاشرتی بہبود ساری انسانیت کو ایک قوم، ایک ملت اور ایک طبقہ کی صورت ایک پلیٹ فارم (اسلام)پر متحد رکھنے سے ممکن ہے۔
آپۖکی اِن نافذ کردہ سیاسی، مذہبی، اخلاقی، معاشی اور سماجی اصلاحات کا مقصد معاشرہ کو مربوط کرنا اور ہر قسم کی بْرائیوں سے پاک رکھنا ہے تاکہ انسان کی ذہنی اور باطنی قوتوں کو پاکیزہ اور پْرسکون فضا میں نشو و نما کا موقع مل سکے، تہذیب و تمدن کی تعمیر مستحکم بنیادوں پر ہو اور ایسا معاشرتی ماحول قائم ہو جائے جس میں انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو ترجیح دی جائے۔ آج کے زوال پذیر معاشرے میں ہمیں اسلامی اقدار کی تجدید کی ضرورت ہے جو آپۖ نے عالمگیر اور بین الاقوامی سطح پر مرتب فرمائیں جہاں کوئی فرد کسی دوسرے کا حق غصب نہ کر سکے ، کسی فردِ واحد کو نسلی یا معاشی فوقیت حاصل نہ ہو، معاشرے میں ہر فرد کو اْس کی ذاتی صلاحیتوں اورمحنت کی بنا پر ترقی کے مواقع فراہم ہوں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے دلوں میں ایمانی روح کو زندہ کیاجائے ،اخلاقی جرائم کے انسداد کیلئے تعزیری تدابیر اپنائی جائیں تاکہ معاشرے میں اسلامی اقدارفروغ پائیں اورحقیقی توازن برقراررہے،نوازن زندگی ہے اورتوازن میں بگاڑموت۔اللہ تعالیٰ سے دُعاہے کہ ہمیں رسول کریمۖ کی سنت مبارکہ یعنی اسلامی تعلیمات پرعمل پیراہونے کی توفیق وطاقت عطاہو(آمین)
تحریر:امتیاز علی شاکر
imtiazali470@gmail.com