کراچی (یس ڈیسک) بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں تین سال پہلے لگنے والی آگ لگی نہیں لگائی گئی، 250 افراد کا جل کر مرنا حادثہ نہیں قتل تھا،20 کروڑ بھتا نہ دینے پرملزمان نے فیکٹری میں کیمیکل پھینک کر آگ لگا دی۔ ملزم کے ایم سی کا ملازم اور تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے، یہ انکشاف سندھ ہائی کورٹ میں پیش جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن کراچی کی فیکٹری میں آگ لگی نہیں،جان بوجھ کر لگائی گئی تھی،وہ خوفناک آگ جس نے 257 مزدوروں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا، تقریباً ڈھائی سال پہلے رونما ہونے والے اس سانحے کی رپورٹ رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ پیش کردی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے کیس میں گرفتار ملزم نے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا،رینجرز لا آفیسر کی جانب سے پیش کی جانے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرفتار ملزم کے ایم سی کا سینیٹری ورکر اور اس کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے۔گارمنٹس فیکٹری کے مالکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ مانگا گیا،بھتہ نہ ملا تو ملزمان نے کیمیکل پھینک کر فیکٹری کو جلا دیا۔اس المناک واقعے میں تقریباً 257 فیکٹری ورکرز شعلوں کی نذر ہوگئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کی اعلیٰ حکومتی شخصیت کے فرنٹ مین نے کیس دبانے کے لیے فیکٹری مالکان سے 15 کروڑ روپے وصول کیے۔