مہندی دلہن کی قریبی رشتے دار خواتین لگاتی ہیں اور مہندی کے برتن میں جانی حسب توفیق چاندی کے روپے ڈال دیتا ہے۔ مخصوص رقم کی قید نہیں ہے‘ صرف شرط یہ ہے کہ روپے جفت ہوں‘ طاق نہ ہوں۔شام کو غسل اور تخت نشینی کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ غسل کیلئے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ دولہا نہایت تزک و احتشام سے مقررہ جگہ پر پہنچتا ہے۔ اس وقت اس کے نوجوان دوست اور اس کے رشتے دار اسکے اردگرد تلواریں تانے پہرہ دیتے ہیں۔ لوڑی (مراثی) تیل‘ صابن‘ عطر وغیرہ تیار کرکے لاتا ہے اور دولہا کو غسل کراتاہے۔ غسل کے بعد دولہا کو نئے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر چند عورتیں طربیہ گیت گاتی ہیں۔غسل سے فراغت کے بعد نکاح خوانی کی رسم شروع ہوتی ہے۔ نکاح اس جگہ پڑھا جاتا ہے جہاں دولہا اور دلہن کو تین راتیں گزارنی ہوتی ہیں۔ اس مخصوص جگہ کو ’’کوٹھو‘‘ کہا جاتا ہے۔جب دولہا بصد ناز کوٹھو کے قریب پہنچتا ہے تو دلہن والے اسکی طرف اون کا بنا ہوا خوبصورت وزنی پھول پھینکتے ہیں جس کو دبوچانا جانی کی ذمے داری ہوتا ہے۔ جانی پھول کو کوٹھو کے خیمے کے پاس ایک لکڑی پر لٹکا دیتا ہے۔ اس کو فتح و نصرت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جانی کو پھول دبوچنے میں خاصی ہشیاری دکھانی پڑی ہے‘ کیونکہ ناکامی کو صورت میں ہر طرف سے اس پر طنز و تشیع کے تیر برسنا شروع ہو جاتے ہیں اور چھوٹے بچے تالیاں پیٹ پیٹ کر اس کی رسوائی کی تشہیر کرتے ہیں۔اونی پھول علامت ہے اس بات کی کہ ہم نے پھول جیسی نرم و نازک اور کوئل دلہن تمہارے قدموں میں پھینک دی ہے… دولہا کے کوٹھو میں بیٹھتے ہی رنگا رنگ تقاریب کا آغاز ہوتا ہے۔ لوڑی‘ ڈھول پر تھاپ دیتا ہے۔ نفیری‘ اپنی مدھرتانیں فضا میں بکھیرتی ہے اور بلوچی رقص شروع ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے )
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اور سابق بیورو کریٹ شوکت علی شاہ بلوچ معاشرے کی چند رسوم و روایات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔شانے کی ہڈی دیکھ کر مستقبل کی پیشگوئی کرنا:جس طرح ماہرین علم نجوم ستاروں کی گردش سے مستقبل کے دریچوں میں جھانکتے ہیں‘ اسی طرح روایات کے مطابق بلوچ ماہرین
ایران بری طرح پھنس گیا،امریکہ نے ایران سے بدلہ لینے کےلیے نئی چال چل دی ، دنیا حیران
بھیڑ یا بکری کے شانے کی ہڈی کی لکیریں دیکھ کر تندرستی ‘ بیماری‘ رزم و بزم اور موسمی حالات کے تغیر و تبدل کے متعلق پیشنگوئیاں کرتے ہیں‘ اس ضمن میں ایک دلچسپ روایت کچھ اس طرح ہے:ایک ماہر شخص نے سفر کے دوران میں شانے کی ہڈی دیکھی تو بید مجنوں کی طرح لرزنے لگا اور ہڈی فوراً پھینک دی۔ ایک دوسرے شخص نے جو اسکے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اور اس سے بہتر سوجھ بوجھ رکھتا تھا‘ اس سے پریشانی کی وجہ پوچھی۔ پہلے آدمی نے بتایا کہ شانے کی ہڈی کی لکیریں ظاہر کرتی ہیں کہ اگر وہ سفر پر روانہ ہو گیا تو اس کی موت یقینی ہے‘ اور اگر ارادہ سفر ترک کرکے واپس چلا جائے تو اپنی بیوی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ دوسرے ماہر نے شانے کی ہڈی اٹھائی‘ اسے غور سے دیکھا اور پھر اطمینان کا سانس لیتے ہوئے دوست سے کہنے لگا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے آٹے کی تھیلی میں انبیان (سانپ) گھسا ہوا ہے۔ اگر تم سفر جاری رکھوں گے تو لامحالہ آٹا نکالنے کیلئے تھیلی میں ہاتھ ڈالو گے اور سانپ تمہیں کاٹ لے گا اور اگر گھر واپس لوٹو گے تو تمہاری بیوی کو یہی عمل دہرانا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ اس کا انجام بھی تم سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ تھیلی کا منہ کھول دو اور اس بلائے ناگہانی سے نجات پائو۔ چنانچہ جب آٹے کی تھیلی کا منہ کھولا گیا تو اس میں سے انبان نکلا جس کو فوراً مار دیا گیا۔
دزدی (چوری) اور رسم حلف:جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے‘ بلوچستان میں دزدی کی واردات بہت کم ہوتی ہیں۔ بالفرض کہیں چوری یا راہزنی کی واردات ہو جائیں تو اسکی جانچ پڑتال نہایت عجیب طریقوں سے کی جاتی ہے۔ اگر مشتبہ شخص کے خلاف عینی شہادت نہ ہو تو اسے حلف دیکر تسلی کی جاتی ہے۔ بعض قبائل کے رسم و رواج کیمطابق ملزم کو آگ اور پانی میں ڈالا جاتا ہے۔ اس کو بلوچی میں ’’آس‘‘ اور ’’آف‘‘ کہتے ہیں۔ ملزم کو اس بات کا اختیار دیا جاتا ہے کہ ان دو میں سے اپنی مرضی کا حلف اٹھا لے۔ اگر ملزم آگ کا حلف پسند کرتا ہے تو اس کو دہکتے ہوئے انگاروں پر چلنے کیلئے کہا جاتا ہے‘ لیکن اگر آگ کے حلف سے گریزاں ہو تو ایک مخصوص مدت تک پانی میں غوطہ لگانا پڑتا ہے۔آگ کے ذریعے حلف دو طریقوں سے لیا جاتا ہے۔ ایک کھائی میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگا دی جاتی ہے‘ جب لکڑیاں جل کر سرخ انگاروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو ملزم سے کہا جاتا ہے کہ ننگے پائوں انگاروں پر چلے۔ اس موقع پر ایک ملا آگ کو قسم دیتا ہے کہ اگر ملزم بے گناہ ہے تو اس کو خدا کے نام پر محفوظ رکھے اور اگر گنہگار تو فی النار کر دے۔ زندگی اور موت کے اس کھیل میں چند منصف مقرر کئے جاتے ہیں جن کی نگرانی میں تمام کارروائی ہوتی ہے اور وہ بعد میں اپنا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ روایت کے مطابق اگر ملزم بے گناہ ہو توآگ‘ ہر چند کہ گلزار تو نہیں بنتی‘
لیکن اسے بے قرار بھی نہیں کرتی اور اگر گنہگار ہو تو پھر اسے جہنم کے سفر کا تردد نہیں کرنا پڑتا۔ اسی طرح پانی میں ملزم کو ایک خاص عرصے تک ڈبکی لگانی پڑتی ہے یا کھولتے ہوئے پانی میں ہاتھ ڈال کر سکے نکالنے پڑتے ہیں۔ تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ اب یہ رسومات قصۂ پارینہ بن گئی ہیں۔شادی بیاہ کی رسومات:شادی کے سلسلے میں چیدہ چیدہ بلوچ اور براہوی رسومات تقریباً ایک سی ہیں‘ البتہ فروعات میں کچھ فرق ہے۔ اپنے قبیلے سے باہر شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے‘ لیکن اگر کوئی مناسب برقبیلے میں نہ ملے تو باامر مجبوری دوسرے قبیلے میں رشتے ناطے کر لئے جاتے ہیں۔میٹر: پہلے مرحلے میں ایک وفد بنایا جاتا ہے جس کو بلوچی اصطلاح میں میٹر بولتے ہیں۔ یہ وفد لڑکے کے قریبی رشتے داروں پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ لوگ ’’میٹر‘‘ کی صورت میں لڑکی کے گھر جا کر اس کے باپ سے رشتہ مانگتے ہیں۔ اگر لڑکی ولے اصولی طورپر رضامندی ظاہر کر دیں تو پھر تفصیلات طے کی جاتی ہیں۔ یہ شرائط حق مہر‘ زر ولور‘ وٹہ سٹہ کے متعلق ہوتی ہیں۔ زر ولور کے طورپر اکثر بھاری رقم کا مطالبہ ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں شاید اس کا کوئی جواز ہو‘ لیکن آجکل ایک عام بلوچ اس کے بوجھ تلے تمام عمر دبا رہتا ہے اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ زر ولور اکٹھا کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ابتدائی گفت و شنید کے بعد لڑکے کی ماں دیگر خواتین کے ہمراہ لڑکی کے گھر جاتی ہے
اور دلہن کے سر پر سبز رنگ کی چادر جس ’’جھمی‘‘ کہتے ہیں ڈال دیتی ہے۔ رشتے کے طے ہوجانے کا اعلان بندوق کے فائر سے کیا جاتا ہے۔شادی کی تاریخ سے سات یوم قبل دلہن کو گھر کے ایک مخصوص حصے میں رکھا جاتا ہے جسے بلوچی میں ’’ڈری‘‘ کہا جاتا ہے۔ دلہن اپنی سہیلیوں کے ساتھ آنے والے حسین دنوں کے خواب دیکھتی ہے اور اس کی کنواریاں سہیلیاں کبھی حسرت سے دلہن کو دیکھتی ہیں اور کبھی پاس سے اپنے ہاتھ کی لکیروں کو ٹٹولتی ہیں۔ بظاہر طرب و نشاط کی ایک محفل جمی ہوتی ہے جہاں رات بھر عورتیں دف کی تھاپ پر ہالو ہلو‘ اور’لیڑوں ولاڑو‘‘ کی تال ٹپر طربیہ گیت گاتی ہیں۔ رات کے سکوت کو چیرتی ہوئی یہ آوازیں کانوں میں عجب سا رس گھوتی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہیں چاندی کے نازک برتن ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں۔ یا پہاڑوں کی گود میں بہتی ہوئی ندی دھیمے سروں میں گنگنا رہی ہو‘ یا کسی مہ وش کے دل کی دھڑکن محبوب کے لمس سے شرما رہی ہو۔ براہوی رسومات بھی خاصی دلچسپ ہیں۔ مقررہ تاریخ پر برات بڑی سج دھج کے ساتھ دلہن کے گائوں میں آتی ہے۔ براتی رنگ برنگے کپڑوں پہتے ہوئے ہیں۔ اونٹوں کے بھی ہار سنگھار کئے جاتے ہیں۔ دولہا کے اونٹ کی آرائش و زیبائش کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ اونٹ کے گلے اور پائوں میں گھنٹیاں اور گھنگھر باندھے جاتے ہیں۔ ہرچند کہ بارات کی دعوت کا انتظام دلہن والے کرتے ہیں‘ لیکن اس کا بل دولہا
کی جیب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ صرف جلانے کی لکڑیوں کا خرچ دلہن کے والدین کے ذمے ہوتا ہے۔بارات اکثر دوپہر کو گائوں میں داخل ہوتی ہے۔ جونہی بارات گائوں کے نزدیک پہنچتی ہے تو گائوں والے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ نوجوان دولہا کے گرد رقص کرتے ہوئے گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ عورتیں باہر ناچتی تو نہیں ہیں‘ لیکن گانے کی حد تک مردوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ جب بارات دلہن کے گھر کے قریب اپنی مقرر کردہ جگہ پر پہنچتی ہے تو دلہن کی والدہ‘ بہنیں‘ الہڑ دوشیزائوں کا لشکر لئے آٹپکتی ہیں۔ اب چھیڑچھاڑ شروع ہوتی ہے۔ نوجوان لڑکیاں نمک ملا آٹا ہاتھوں میں لئے دولہا کی ماں اور بہنوں پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ غضب کا رن پڑتا ہے۔ منت سماجت کی جاتی ہے۔ ہاتھ جوڑے جاتے ہیں۔ نذر نیاز دی جاتی ہے‘ مکر و فن کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ فریب وعدہ فردا کے جال پھیلائے جاتے ہیں۔ تب کہیں جا کر ان حسین بھڑوں کے رنگین چنگل سے جان بچتی ہے۔رات کی مہندی کے وقت سے لیکر نکاح تک کی درمیانی مدت کیلئے ایک ہمہ صفت آدمی کو دلہا کا مصاحب بنایا جاتا ہے۔ اس کو براہوی اصطلاح میں ’’جانی‘‘ بولتے ہیں۔ وہ ہر وقت دولہا کے ساتھ رہتا ہے اور اگر دولہا کے پاس اسلحہ ہو تو اس کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ چونکہ براہوی اصطلاح میں دولہا کو بادشا کہا جاتاہے‘ اس لئے متذکرہ شخص وزارت کا قلمدان سنبھال لیتا ہے۔ مہندی کی رسم کے وقت بھی جانی دولہا کے پاس ہوتا ہے۔