پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے ہسپتال میں آٹھ اگست کو ہونے والے بم دھماکے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ قانونی و انتظامی اداروں کی نااہلی، وسائل کی کمی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت خصوصاً وزارتِ داخلہ کی غیر ذمہ داری اور پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں جو نتائج حاصل کیے ہیں انھیں 26 نکات میں بیان کیا ہے جنھیں دستاویزی ریکارڈ، شہادتوں، اور تحریری ثبوتوں کی تصدیق کرنے کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ آٹھ اگست کو ہونے والے دونوں حملوں کا ایک دوسرے سے تعلق تھا اور انھیں ایک ہی گروہ نے کیا۔
خودکش حملہ آوروں کی شناخت تب ہی ممکن ہوئی جب کمیشن نے مداخلت کی اور پولیس سے کہا کہ وہ ان کی فورینزک طریقہ کار کے ذریعے تصاویر لیں اور اخبارات میں شائع کریں۔ اس کے لیے انعام بھی مقرر کیا گیا، نتیجتاً ایک شخص نے خود کش حملہ آوروں کی شناخت کی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں بھی بتایا۔
ان حملہ آوروں کی جانب سے کیا جانے والا یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ اگر ریاست کے کچھ عہدیدار اپنے گذشتہ حملوں کا فورینزک ریکارڈ محفوظ رکھتے اور کیس آگے بڑھاتے تو شاید آٹھ اگست کے حملوں سے بچا جا سکتا تھا۔ کمیشن نے حوالہ دیا کہ سنہ 2012 کے دہشت گردی کے حملے کے بعد آنے والے عدالتی فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق آئی جی پولیس کو دہشت گردی کے حملے کے بعد جائے حادثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے موجود اصول و طریقہ کار کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ ‘ کرائم سین کو محفوظ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی فرینزک طریقے سے ان کا معائنہ کیا گیا تھا۔’ اور بہت دن بعد کمیشن کی ہدایات ملنے پر یہ اقدامات کیے گئے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ لیویز اہلکاروں نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر حملے کی زد میں آنے والے کوئٹہ ہسپتال میں ہوائی فائرنگ بھی کی۔ پولیس کو دہشت گردی کے حملے کے بعد معلوم طریقہ کار میں سے کوئی بھی ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق کوئٹہ ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہے۔ وہاں نہ صفائی کا مناسب انتظام ہے، نہ ابتدائی طبی امداد کے لیے سامان نہ ہی ایمبولیسنز۔ ہسپتال میں ناکافی سٹریچرز ہیں اور ضروری طبی سامان موجود نہیں اگر ہے تو خستہ حالت میں ہے۔
ہسپتال میں آمدورفت کے لیے نگرانی کا کوئی نظام نہیں کوئی جب چاہے ہسپتال کے کسی بھی حصے میں جا سکتا ہے۔ کمیشن نے ہسپتال کے سکیورٹی نظام کو ناکافی قرار دیا اور وہاں کے عملے کی غیر ذمہ داری پر بھی بات کی ہے۔
کہا گیا ہے کہ وسائل اور عملے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سے زخمیوں کی موت واقع ہوئی اور بہت سوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں قانون پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور اقربا پروری کا کلچر ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی طور پر نا اہل افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سیکریٹری ہیلتھ کا حوالہ دیا گیا جو کہ ایک وفاقی وزیر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے بھائی ہیں۔
’حکومتی امور میں وزارتوں کی مداخلت کرپشن کو پیدا کیا اور ڈسپلن کو کمزور کیا اور حکومتی سروسز کو سیاست زدہ کیا ہے۔‘ کمیشن کے مطابق بلوچستان کو اے اور بی ایریا میں پولیس اور لیویز کے درمیان تقسیم کرنے سے متعدد مسائل نے جنم لیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف سی سول انتظامیہ کو جوابدہ نہیں ہے لیکن پولیس کے مقابلے میں اس کا کردار غیر واضح ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ، وزیرِ داخلہ اور ان کے ترجمان نے پریس میں غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر حکومت کی ساکھ کو کمزور کیا۔ ‘ان بیانات میں من گھڑت بیانات بڑے پیمانے پر نشر ہوئے، تحقیقات میں خلل ڈلا، اور غلط توقعات بیان کی گئیں۔’
کمیشن کا کہنا ہے کہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے داخلی قومی سکیورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ یہ وزارت غیر واضح لیڈر شپ اور ہدایات کے بغیر چل رہی ہے اور ‘دہشت گردی کے نمٹنے کے لیے اپنے کردار کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔’
کمیشن کی رپورٹ میں نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ‘نیشنل ایکشن پلان بامعنی یا منظم منصوبہ نہیں ہے، نہ ہی اس کے اہداف کی اس طرح نگرانی کی جارہی ہے یا ان پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔’
کمیشن کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کالعدم تنظیمیں اب بھی اپنی غیر قانونی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور نئی تنظیموں کو طویل عرصے بعد کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ ‘کچھ دہشت گرد تنظیموں کو اب بھی کالعدم قرار نہیں دیا گیا یا ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ ان کی جانب سے دہشت گرد حملے کے جانے کے اعترافی بیانات نشر اور شائع ہوتے ہیں۔’
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وفاقی وزارتِ داخلہ کے وزیر چوہدری نثار کے بارے میں کہا ہے کہ انھوں نے اپنی وزارتی ذمہ داری بہت کم نبھائی ہیں اور ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا فقط ایک اجلاس منعقد ہوا ہے۔ اس وزارت نے نیکٹا کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
‘ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ملے، اسے میڈیا میں بڑے پیمانے پر ان کی تصویر کے ساتھ رپورٹ کیا گیا مگر وہ اب بھی ایسا کیے جانے سے انکاری ہیں۔’
کمیشن کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ نے شناختی کارڈ کے حوالے سے کالعدم تنظیم کے مطالبات کو پورا کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے میں وفاقی وزیر نے ناقابل بیان حد تک دیر کی۔ ‘ایک جانی پہچانی دہشت گرد تنظیم کو کالعدم قرار نہیں دیا۔’
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ‘نیکٹا ایکٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور نیکٹا مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔’
کمیشن کا کہنا ہے کہ نیکٹا کے بورڈ آف ممبر نے اجلاس نہیں کیا، ایگزیکٹو کمیٹی ساڑھے تین سال میں فقط ایک بار ملی ہے اور نیکٹا کی نگرانی مشترکہ قانون کے بغیر بنائے گئے ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو سونپی گئی ہے جس کی سربراہی حکومت کے ریٹائرڈ افسران کر رہے ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہاپسندی کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ، وزارتِ مذہبی امور و مذہبی ہم آہنگی، کسی صوبائی ڈپارٹمنٹ یا حکومتی ادارے نے عوامی نمائندوں کی جانب سے اس انتباہ کے باوجود کہ ‘دہشت گردی اور انتہاپسندی کی لعنت ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے کوئی بیانیہ تحریر نہیں کیا۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’مغربی سرحدوں کی نگرانی نہیں کی جاتی حتیٰ کہ سرکاری طور پر موجود راستے پر لوگوں اور اشیا (دہشت گردوں، ہتھیاروں اور ایمونیشن اور دیگر ممنوع اشیا) کی آزادانہ آمدورفت کو میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ‘
کمیشن کی رپورٹ میں وزارتِ مذہبی امور کو قریب المرگ وزارت قراردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کا اپنا بنیادی مینڈیٹ پورا نہیں کر رہی۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ ‘مدارس کی رجیسٹریشن یا نگرانی نہیں کی جا رہی۔’
کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے مالی نقصان ہو رہا ہے تاہم اس کے اثرات کم کرنے یا اس سے بچنے کے لیے بہت کم کام کیا جا رہا ہے۔
کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی وزارتوں اور اداروں اور صوبائی محکموں کے درمیان کے پاس رابطوں جن میں پوسٹل ایڈریس، ای میل اور ٹیلی فون نمبرز شامل ہیں کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ میڈیا کے پاس دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی بہت کم کہانیاں ہیں۔ بظاہر میڈیا دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کی کوریج کرتا ہے جو کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 ڈبلیو خلاف ورزی ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کے آخرے نکتے میں کہا گیا ہے کہ بہت سے افراد اور اداروں نے مثالی خدمات بھی سرانجام دی ہیں ۔ اس میں پنجاب حکومت نے قلیل مدت میں فرانزک لیبارٹری تیار کی۔