بلوچستان کے عوام زندگی کی بنیادی سہولیات محرومی کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم اور صحت سے بھی محروم ہیں بلکہ صحت کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کرنے والی رپورٹ سامنے آئی ہے۔اس کے مطابق بلوچستان میں ایڈز کے مر یضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع کیچ میں 260 اور گوادر میں 16 مر یض ایڈز کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ روز صو بائی ایڈز کنٹرول پروگرام بلوچستان کے تحت معلو ماتی سیشن کا انعقاد محکمہ صحت ضلع گوادر کے آ فس میں کیا گیا۔
سیشن کی صدارت ضلعی ہلیتھ آ فیسر گوادر ڈاکٹر اختر بلیدی نے کی۔سیشن سے خطاب کر تے ہوئے ایڈز ائچ آئی وی کنٹرول پروگرام کے ڈپٹی منیجر ڈاکٹر داؤد نے شرکاء کو بتا یا کہ ایڈز ایک خطرناک اور موذی مرض ہے جس سے انسان زندگی بھر نقاہت کا شکار ہوتا ہے لیکن بروقت علاج سے مر یض کی حالت سنھبل سکتی ہے مر یضوں میں بنیادی طور پر ایچ آئی وی کا وائرس انتقال خون ، استعمال شدہ سرنج اور دیگر اوزاروں سے پھیلتا ہے بلڈ بنک سے حاصل کیا جانے والا خون بھی ایچ آئی وی ایڈز وائرس کا ایک اہم سبب ہے جہاں بلڈ سستے داموں فروخت کیاجاتا ہے اور مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ خون نشہ کی لت میں مبتلا افراد سے حاصل کی جاتی ہے جو اپنا خون سستے داموں بلڈ بنک کو فروخت کرتے ہیں۔ لیکن مرض کی بروقت تشخیص اور علاج سے اس کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے لوگوں میں شعور وآ گہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماری دوسر ے انسانوں میں منتقل ہورہی ہے جس کے لےئے ضر ورت اس امر کی ہے کہ اس موذی مرض کے حوالے سے شعور وآگہی کے پروگرام کو تیز کیاجائے اس حوالے سے میڈیا کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں ایک لاکھ آ ٹھ ہزار مر یض ایچ آ ئی وی ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہیں ضلع کیچ میں مر یضوں کی تعداد 260ہے جہاں 224خواتین، 27مرد اور 9بچوں میں ایچ آ ئی وی ایڈز کی تصد یق ہوچکی ہے جبکہ گوادر میں ایچ آ ئی وی ایڈز میں مبتلا مر یضو ں کی تعداد 16ہے جن میں مرد وں کی تعداد 9خواتین کی 4اور بچوں کی 3ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایچ آ ئی وی ایڈز کے علاج کے لےئے سہو لیات فراہم کی گئی ہیں جس کے تحت ملک کے تمام ڈی ایچ کیو اسپتالوں میں ایچ آ ئی وی ایڈز کی تشخیص اور علاج کی سہو لیات بہم پہنچائی گئی ہیں کوشش کر رہیں کہ رول ہیلتھ سینٹر ( آر ایچ سی) اور بنیادی مراکز صحت ( بی ایچ یوز ) میں بھی یہ سہو لیات پہنچائی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ بر وقت علاج اور احتیاطی تدا بیر اختیار کر نے سے مرض کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے اگر کسی مر یض میں ایچ آ ئی وی ایڈز کی علامات ظا ہر ہوں تو وہ فوراً اسپتال کر رخ کر ے باقاعدگی سے دوائی استعمال کر نے سے مرض کے نقصان مزید کو کم کیا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل بھی پاکستان کو عالمی ادارہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے، دوسری جانب یہاں کے لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہو وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 85 ہزار سے ایک لاکھ 30 ہزارتک افراد ایچ آئی وی ایڈز کے مرض سے متاثر ہیں۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ان میں سے 45 ہزار مریضوں کا تعلق سندھ سے ہے۔ایڈز کی روک تھام کے لیے قائم کئے جانے والے سرکاری ادارے سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے پروگرام مینیجرڈاکٹر یونس چاچڑ کے مطابق صرف ایک سال کے عرصے کے دوران سندھ میں ایچ آئی وی وائرس کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ایڈزکنٹرول پروگرام کے تحت اس برس اب تک 4 ہزار 747 مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جن کا علاج جاری ہے۔
جبکہ رواں سال کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں ایڈزوائرس کے مریضوں میں7 فیصد اضافہ ہوا ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔انسان کے جسم میں قوت مدافعت کم کرنے اور اسے دیگر امراض کا آسان ہدف بنانے والے ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب نشے کے لیے استعمال کی جانے والی سرنجیں ہیں۔ ڈاکٹر یونس چاچڑ کہتے ہیں، اس وقت صرف سندھ میں ہی 16ہزار افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں، 6 ہزار742 میل سیکس ورکرز، 9 ہزار69 خواجہ سرا جبکہ فی میل سیکس ورکرز کی بھی بڑی تعداد موجودہے جن کی وجہ سے ایڈز تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں 2015 میں دنیا بھر میں دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
ڈاکٹر چاچڑکے مطابق ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا افراد میں اس مرض کی علامات دیر بعد ظاہر ہوتی ہیں، اکثر مریضوں میں پہلے فلو کی طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسے بخار، پٹھوں میں درد، خارش، سر درد وغیرہ۔ اس کے علاوہ وزن میں کمی، اسہال بھی اس کی علامات میں شامل ہے تاہم اس کی درست تشخیص ایچ آئی وی ٹیسٹ کے بعد ہی کی جا سکتی ہے جس کی سہولت ملک بھر میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت قائم کیے جانے والے 15 مراکز میں موجود ہے جہاں سے یہ ٹیسٹ بالکل مفت کروائے جا سکتے ہیں۔ڈاکٹر چاچڑ کے مطابق ایڈز کے مرض پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے جو غلط تصورات ہیں، ان کو ختم کیا جائے کیونکہ عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی غلط طریقے یا بے راہ روی کے باعث لاحق ہوتا ہے۔ جبکہ اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں بلکہ یہ انتقال خون، استعمال شدہ ریزر بلیڈ، متاثرہ ماں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کو بھی ہو سکتا ہے۔
ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے لیے ایک ناسور بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے ۔ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ پاکستان میں ایڈز کے ایک لاکھ سے زائد مریض ہو سکتے ہیں اور صرف 15 مراکز ہیں، جہاں اس کا ٹیسٹ مفت ہو رہا ہے ۔جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں اور کروا بھی کیسے سکتے ہیں۔ چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں. اس خطرناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے.