تحریر : حفیظ اللہ مینگل
یوں تو بلوچستان آغاز سے ہی مختلف مسائل میں جھکڑا ہواہے ان تمام مسائل ایک اہم مسئلہ آبی بحران ہے آبی مسئلہ صرف صوبے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ اس سے مستقبل قریب میں ایک بہت بڑا المیہ بھی جنم لے سکتاہے یعنی یہ آبی بحران ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرے گا۔آبی بحران ہمیشہ اس وقت ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرتا ہے جب ناقص انتظام او رغلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے پانی کو بہتر اندازمیں استعمال اور زخیرہ نہیں کیا جاتا ہے تقریبادس سال پہلے بلوچستان میں آبی بحران کو مدِنظر رکھتے ہوئے ساحلی شہر اوتھل میں ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایاگیا ہے جس سے سمندری علوم،آبی منصوبہ بندی اورزرعت کے شعبوں کو اجاگر کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کیے گئے ۔ان انتطامات سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے بلوچستان کے طول وعرض سے تشنگان ِعلم حصول علم کے لئے پہنچ گئے۔
پانچ سال بعد داخلہ لینے والے سینکڑوں طلباء اور طالبات یونیو رسٹی سے فارغ التحصیل ہونے لگے ساحل پر واقع ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی میں سمندری علوم میں فارغ ہونے والے طلباء اور طالبات بہت قابل اور ہنرمند ہیں لیکن بدقسمتی سے غلط منصوبہ بندی اور سابقہ پالیسیوں کو نظرانداز کرنے کی روایت کی بدولت سمندری علوم میں گریجوئیٹس کرنے والے طلباء وطالبات پانچ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بے روزگار ہیں حالانکہ بلوچستان کو اللہ پاک نے نو سو کلومیٹر سے زائد ساحل سمندر کی نعمت عطا کی ہیں۔
اس کے بعد آبی منصوبہ بندی نامی شعبے کے طلباء اور طالبات کے ساتھ ہونے والے ناانصافیوں کی فہرست ناقابل فراموش نہیں ہے آبی منصوبہ بندی (Water Resources Management)کے طلباء بھی سمندری علوم (Marine Sciences) کے طلباء کی طرح فارغ ہونے بعد کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بے منزل ہیںوہ بے روزگاری کی وجہ سے ہردر پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں لیکن طفل تسلیوں کے سواانہیں بھی ابھی تک کچھ نہیں ملا ہے حالانکہ میں پہلے زکر کرچکا ہوں کہ بلوچستان میں آبی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جو آبی بحران اختیار کر چکا ہے وہ ایک روز انسانی بحران شکل میں سامنے آئے گا۔تو اس وقت اعلیٰ سطح میٹنگز اورتباہ شدہ انسانی آبادیوں کی فضاء سے نگرانی کرنا کسی کو کچھ کا م نہیں دیگا بلکہ ایک دفعہ پھر بیورکریسی اور اسٹبلشمنٹ کے سوداگر اپنے اپنے جیبوں کو بھریں گے۔
بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ اس یونیورسٹی میں ایک اور فیکلٹی کا زکر میں نے کیا تھا وہ ہے زراعت یعنی اس شعبے میں فارغ التحصیل گریجوئیٹس کا کام ہوتا ہے کہ وہ کسی علاقے کی آبی اور موسمی حالات کو مدِنظر رکھ کر کاشتکاروں کو بیج اور کھاد کے ساتھ ساتھ مناسب دیکھ بھال کے طریقوں سے روشناس کرانا ہوتاہے چونکہ بلوچستان میں اکثر لوگ زراعت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کے لئے زرعی میدان میں آگاہی اور سہولیات کی اشد ضرورت ہے لیکن حکومت کی بے حسی اور بد انتظامیوں کی بدولت زرعی گریجوئیٹس بھی بے روزگار ہیں اور ایک عرصے سے احتجاج پر مجبور ہیں۔
ان تمام بالا حقائق کو مدِنظر رکھ کر یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ دوسرے شعبوں کی طرح بلوچستان میں سائنسی علوم میں مہارت رکھنے والے طلباء کو بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی سے بیزار کرنے کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے ،حالانکہ آبی منصوبہ بندی (Water Resources Management)، سمندری علوم (Marine Sciences ) اور زرعی تعلیم (Agriculture) گریجوئیٹس کے لیے بلوچستان میں روزگار کے بہت زیادہ چانسز موجود ہیں ۔نو سوکلو میٹر سے زائد لمبی ساحل پر 200 گریجوئیٹس ،پاکستان کے رقبے کا 48فیصد رقبہ پر مشتعمل صوبہ بلوچستان میں 300آبی منصوبہ بندی کے گریجوئیٹس اور 70 فیصد آبادی کا زراعت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہونے کے باوجود 480زرعی گریجوئیٹس کو روزگار کے مواقع فراہم نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔اگر حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان تمام گریجوئیٹس کو بلوچستان کے صرف دو ڈویژنز مکران اور نصیرآباد میں اس سے زیادہ روزگارکے مواقع مل سکتے ہیں۔
میں اپنے ارباب اختیار کو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ ایک تعلیم یافتہ گریجوئیٹ کے لئے احتجاج آخری حربہ ہوتا ہے اس لئے سمندری علوم ،آبی منصوبہ بندی اور زرعی تعلیم کے گریجوئیٹس آخری حربے کے طور پر بے روزگار الائنسز بنا کر احتجاج کررہے ہیں۔کاش ہمارے حکمران ان بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوان کی احتجاج سے متاثر ہو کر ان کے لئے فوری طور پر روزگار کے مواقع پیدا کریں تاکہ یہ تعلیم یافتہ مستقبل کے معمار سڑکوں پر احتجاج کے بجائے قوم و ملک کی بہتر انداز میں خدمت کرسکیں۔
تحریر : حفیظ اللہ مینگل