فنون لطیفہ میں جہاں ادب، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون کی اپنی اہمیت ہے وہاں فن مصوری اور خطاطی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان فنون پر مہارت رکھنا ایک خداداد صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی اپنی محنت اور فن سے محبت کا ثبوت بھی ہے۔ موجودہ وقت میں جہاں مشینی انقلاب نے انسانوں کو بہت مصروف بنا کر اس کےلیے کئی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں کچھ کام ایسے بھی ہیں جنہیں سائنسی انقلاب نے متاثر تو کیا مگر ان کی اہمیت شاید کبھی ختم نہ ہوئی جن میں فن مصورری اور خطاطی شامل ہیں۔
بلوچستان کے تاریخی شہر اور قدیم بلوچستان کے دارالحکومت قلات میں دو ننھے پینٹر اور خطاط محمد یاسین اور خدا بخش نے اپنے ہم عمروں اور دیگر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ساتویں جماعت کے یہ دونوں طلبا بیک وقت فن مصوری، خطاطی اور پینٹگ پر عبور رکھتے ہیں۔ محمد یاسین اور خدابخش کے والد ثناء اللہ پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر قلات کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ اسی کے ساتھ وہ خودایک اچھے پینٹر اور خطاط بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ننھے تخلیق کاروں کو سیکھنے اور ان کے شوق کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کے والد کے بقول گھر میں موجود کتابیں، خطاطی اور پینٹنگ کے نمونے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو روز رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دونوں بچوں کا کہنا ہے کہ اسکول میں اساتذہ کی طرف سے کچھ خاص حوصلہ افزائی نہیں ہوتی مگر پھر بھی چند ایسے اساتذہ ہیں جو ہمارے کام کی قدر کرتے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مگر شہر سے باہر ہونے والے مقابلوں میں حصہ لینے کےلیے ہمارے والد ہمیں لے کر جاتے ہیں۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ دونوں بچے خطاطی اور پینٹگ کے مقابلوں میں تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبائی سطح پر جیت چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسکول میں اپنے دیگر طالب علم ساتھیوں کی دلچسپی کو دیکھ کر ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔
اپنے بچوں میں غیرمعمولی صلاحیتوں کے حوالے سے ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ قدرت کی طرف سے کچھ ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ان کی صلاحیتوں کو ا بھارنے کےلیے دونوں بھائیوں کے درمیان مقابلے کا رجحان پیدا کیا ہے۔ البتہ فن خطاطی اور پینٹنگ ایک وقت طلب کام ہے تو ان کی کوشش رہی ہے کہ وہ اس فن سے دور بھی نہ رہیں اور ان کی تعلیم بھی متاثر نہ ہو۔
جب ان ننھے فنکاروں کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے ان کے والد سے بات ہوئی تو انہوں نے چند خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دور جدید میں فنون لطیفہ میں خطاطی، پینٹنگ اور مصوری کو حکومت کی طرف سے کوئی خاطرخواہ سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ فن میرے بچوں کا ذریعہ معاش نہیں بن سکتا۔ تو میری کوشش ہے کہ میں انہیں اعلی تعلیم دلواسکوں یا انہیں سی ایس ایس کے امتحانات میں حصہ لینے کےلیے تیار کرلوں تاکہ ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے کا موقع ملے۔
نوٹ: یس اردو نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یوسف عجب بلوچ
یوسف عجب بلوچ ایوارڈ یافتہ صحافی اور تربیت کار ہیں۔ وہ 2017 میں آگہی ایوارڈ اور کمالِ صحافت کا اعزاز ’’لب آزاد‘‘ بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ آپ جامعہ بلوچستان میں ایم فل کے طالب علم ہیں جبکہ براہوی اور انگریزی میں تین کتابیں بھی تصنیف کرچکے ہیں۔ آپ آن لائن انگریزی روزنامہ ’’بلوچستان پوائنٹ‘‘ کے بانی بھی ہیں جس کا آغاز 2010 میں کیا گیا۔
بشکریہ :ایکسپریس