اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی ماتحت عدالتوں کے ججوں کی طرف سے سوشل میڈیا کے استعمال پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ٹوئٹر، فیس بک وغیرہ استعمال نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ماتحت عدالتوں کے ججوں کو یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا پر بھی نامور صحافی شہزاد ملک بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔ کوئی اکاؤنٹ نہیں ہونا چاہیے اور اگر ایسا پایا گیا، تو ذمہ دار شخص کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے چند روز قبل ایک سرکلر جاری کیا گیا تھا جس میں وفاقی دارالحکومت میں تمام عدالتی افسران کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر ان کی طرف سے نہ کوئی ٹویٹ ہونی چاہیے اور نہ ہی فیس بک اور انسٹا گرام پر کوئی اکاؤنٹ ہونا چاہیے۔اس سرکلر میں یہ کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر متحرک ہونا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلام آباد میں 100 کے قریب عدالتیں ہیں جن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ایسٹ اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ کے ماتحت چالیس چالیس عدالتیں ہیں۔اس کے علاوہ اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی دو، احتساب کی دو، سپیشل جج سینٹرل، سائبر کرائم اور انسدد منشیات کی عدالتیں بھی قائم ہیں جبکہ ججوں پر دورانِ ڈیوٹی موبائل فون استعمال کرنے پر پہلے سے ہی پابندی عائد ہے۔واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت کے ڈپٹی کمشنر پر، جن کے پاس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ بھی ہے، ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔عدالت عظمیٰ کے کسی بھی کورٹ روم میں موبائل فون لے کر جانے پر پابندی ہے اور عدالتی عملہ کمرۂ عدالت کے باہر وکلا، سائلین اور میڈیا کے نمائندوں کے موبائل فون اکٹھے کرلیتا ہے۔پاکستان کی دیگر چاروں ہائی کورٹ کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی سرکلر جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کی جانب سے ماتحت عدلیہ کے ججوں پر سوشل میڈیا استمعال کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے یہ سرکلر جاری کرنے سے پہلے وزارت قانون میں بھی موبائل فون لے کر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ وزارتِ قانون کی جانب سے یہ بھی حکم جاری کیا گیا ہے کہ گریڈ 16 کا کوئی بھی سرکاری ملازم اگر وزرات میں کسی کام کے سلسلے میں آئے گا، تو متعلقہ شخص کی اس سے استقبالیہ پر ہی ملاقات کروائی جائے گی۔گذشتہ ہفتوں میں سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی جانب سے ملزمان اور سائلین پر تشدد کی کئی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کے اعلیٰ حکام نے اس کا حل یہ نکالا کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور محرر کے پاس کیمرے والے فون ہوں گے جبکہ تفتیش اور دیگر شعبوں کے اہلکار تھانوں کی حدود میں کیمرے والا موبائل استعمال نہیں کرسکیں گے۔اگرچہ پنجاب پولیس کے سربراہ کی طرف سے سائلین کے لیے تھانوں میں کیمرے والا موبائل لے کر جانے پر پابندی کا نوٹیفکیشن تو جاری نہیں کیا گیا، تاہم ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں پنجاب کے مختلف شہروں میں تھانوں کے باہر پولیس کا عملہ سائل کو موبائل سمیت تھانے کی حدود میں جانے کی اجازت اس وقت تک نہیں دیتا جب تک وہ موبائل تھانے کے باہر پولیس اہلکار کے پاس جمع نہیں کروا دیتے۔