بنگلہ دیش میں سنہ 2001 میں ایک 13 سالہ لڑکی سے جنسی زیادتی کی خبر شہ سرخیوں میں رہی لیکن 15 برس بعد بھی پرنما شل کو سوشل میڈیا پر طعنوں اور بدگوئی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ نشریاتی ادارے کی شہناز پروین نے پرنما سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ریپ کا شکار ہونے والے افراد سے روا رکھے جانے والے سلوک پر بات کی۔
‘میرے گھر سے دو سو گز کے فاصلے پر شمشان گھاٹ تھا۔ وہیں انھوں نے مجھے ریپ کیا۔ میں ان کی ٹارچوں کی روشنی میں ان کے چہرے دیکھ سکتی تھی۔’
پرنما شِل کو شمالی بنگلہ دیش کے الاپڑا نامی گاؤں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے لیے 25 افراد کو ملزم قرار دیا گیا جن میں سے 11 کو بعد میں سزا بھی ہوئی۔
پرنما کا کہنا ہے کہ’وہ مجھے نوچ رہے تھے۔ میرے کپڑے پھاڑ رہے تھے، فحش لطائف سنا رہے تھے۔ ایک وقت آیا کہ میں ہوش کھو بیٹھی۔’
جب کئی گھنٹے بعد انھیں ہوش آیا تو وہ گرتی پڑتی اپنے گھر پہنچیں جہاں پولیس اہلکار موجود تھے۔
‘وہاں بہت روشنی تھی اور بہت سے لوگ بھی۔ پولیس اہلکاروں سے بھرا ایک ٹرک بھی تھا۔ وہ مجھ سے پوچھتے رہے؟ کیا انھوں نے تمھیں ریپ کیا لیکن میں تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ ریپ ہوتا کیا ہے۔’
اس جنسی حملے کی بربریت کی وجہ سے بنگلہ دیشی اخبارات میں اس کا چرچا رہا اور وہیں سے یہ خبر عالمی میڈیا تک بھی پہنچی۔
لیکن جو چیز کبھی رپورٹ نہیں کی گئی وہ یہ کہ اس بربریت کے 15 برس بعد بھی پرنما کو آن لائن تضحیک کا نشانہ بننا پڑتا ہے جس کی وجہ بنگلہ دیش کے کچھ علاقوں میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے فرد سے جڑا اس کا ماضی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ‘2013 میں مجھے فیس بک کے ایسے صفحے کا پتہ چلا جس پر میرا نام اور میری تصویر استعمال ہو رہی تھی۔ اس پر میرے دفتر کا پتہ اور میرا فون نمبر بھی درج تھا۔ اس صفحے پر فحش باتیں اور خواتین کی فحش تصاویر شائع کی جا رہی تھیں۔ ایسے پیغامات بھی تھے کہ ‘میں کرائے پر دستیاب ہوں۔’
سکول ہو یا کالج یا پھر یونیورسٹی، مجھے ہمیشہ اسی سلوک کا سامنا رہا۔ میں گلی میں نہیں نکل سکتی تھی کیونکہ لوگ میری جانب اشارے کر کے کہتے تھے، یہ تو وہی لڑکی ہے۔ان میں سے کچھ نے تو میرے بال بھی کھینچے اور مجھے مارا بھی۔ وہ کہا کرتے تھے۔ اس کی عزت خراب ہو چکی ہے۔ اس سے بات مت کرو۔ وہ مجھے ریپ کا نشانہ بنی لڑکی کہا کرتے تھے۔ پرنما شل
اس وقت پرنما ایک مقامی ٹی وی چینل پر کام کر رہی تھیں جہاں ان کے کئی دوستوں اور ساتھ کام کرنے والے افراد نے اس صفحے کو پرنما کا اصل صفحہ سمجھ کر فیس بک پر دوستی کی پیشکش قبول کی تھی۔
‘انھوں نے مجھ سے پوچھا، تم یہ فحش تصاویر کیوں لگا رہی ہو؟ کیا تم اس طریقے سے پیسے کماتی ہو۔ ایک دوست نے تو یہاں تک پوچھا کہ میرا ریٹ کیا ہے۔’
دوستوں اور ساتھیوں کے طعنوں اور اس سے قطع تعلق کر لیے جانے بعد پرنما نے یہ نوکری چھوڑ دی۔
وہ کبھی نہیں جان سکیں کہ وہ صفحہ کس نے بنایا تھا تاہم رواں برس اپنے ایک دوست کی مدد سے پرنما اس صفحے کو بند کروانے میں کامیاب ہوگئیں۔
پرنما کے لیے یہ آن لائن سلوک اس جارحیت کا ایک نیا رخ تھا جس کا انھیں ساری زندگی سامنے رہا ہے۔ اس جارحیت کی جڑیں اس خیال میں پیوست ہیں کہ جنسی حملے کا نشانہ بننے والے افراد بےتوقیر ہوتے ہیں۔
‘سکول ہو یا کالج یا پھر یونیورسٹی، مجھے ہمیشہ اسی سلوک کا سامنا رہا۔ میں گلی میں نہیں نکل سکتی تھی کیونکہ لوگ میری جانب اشارے کر کے کہتے تھے، یہ تو وہی لڑکی ہے۔
ان میں سے کچھ نے تو میرے بال بھی کھینچے اور مجھے مارا بھی۔ وہ کہا کرتے تھے۔ اس کی عزت خراب ہو چکی ہے۔ اس سے بات مت کرو۔ وہ مجھے ریپ کا نشانہ بنی لڑکی کہا کرتے تھے۔’
پرنما اب موسیقی کے استاد کے طور پر کام کرتی ہیں اور کلاسیکی بنگلہ نغمے گانا اور ہارمونیم بجانا سکھاتی ہیں۔ ‘جب بھی میں خود کو کمزور محسوس کرتی ہوں۔ میں کمرہ بند کر کے گا لیتی ہوں۔’
تاہم وہ جانتی ہیں کہ اگرچہ فیس بک کا وہ صفحہ اب موجود نہیں لیکن انھیں اپنے ماضی کے اس تاریک پہلو سے آسانا سے چھٹکارا ملنے والا نہیں۔
جب میں نے اس صفحے پر جا کر دیکھا تو میرے ایک دوست نے وہاں لکھا تھا ‘پرنما تم میں کچھ حیا باقی ہے۔’
وہ کہتی ہیں کہ ‘وہ مجھے اس چیز پر شرمسار کر رہے ہیں جو میں نے کی ہی نہیں۔ یہ میرے لیے شرم کا مقام نہیں بلکہ بنگلہ دیشی معاشرے کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔’