تحریر: علی عمران شاہین
22 نومبر 2015ء کو بنگلہ دیسی وزیراعظم حسینہ واجد کے جنگ 1971ء کے حوالے سے قائم خصوصی انٹرنیشنل وار کرائم ٹریبونل نے پاکستان سے وفاداری کا الزام لگا کر اپنے ہی ملک کے مزید دو معزز ترین شہریوں محمد علی احسن مجاہد اور صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ دونوں شخصیات کوئی عام شہری نہیں ‘ملک کے رکن پارلیمان ہی نہیں بلکہ وفاقی وزراء رہ چکی تھیں۔ انہیں 2010ء کے آخرمیں گرفتار کیا گیا تو انتہائی تیزی سے مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے بالآخر اس انجام تک پہنچا دیا گیا جو پہلے سے ہی طے تھا۔
16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہواتووہ دن بنگلہ دیش کاقومی دن قرارپایا۔سقوطہ ڈھاکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے لیے ایک حادثۂ جانکاہ تھا جس کا دردآج بھی امت محسوس کرتی ہے کہ اس سانحہ نے دنیاکی سب سے بڑی مسلم ریاست کو دوٹکڑے کر دی اتھا۔ بے شمار وفاداران ملت اس سانحہ کے مخالف تھے جن میں پاکستان بنانے میں مرکزی کردارادا کرنے والے اہل بنگال کی بھی بڑی تعداد شامل تھی لیکن جب پاکستان ٹوٹ گیا تو بنگلہ دیش کے رہنے والے ان لوگوں نے اپنی محبت اور تعلق اپنے نئے وطن بنگلہ دیش کے ساتھ وابستہ کر لیا۔ پھر 1974ء میں لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر جب پاکستان نے بنگلہ دیش کو الگ آزادملک کے طور پر تسلیم کر لیا تو تھوڑے ہی عرصہ بعد پاکستان’ بنگلہ دیش اوربھارت نے مل کر ایک سہ فریقی معاہدہ طے کیا۔
جس میں یہ قرار پایاتھا کہ 1971ء کی جنگ کے حوالے سے تینوں ممالک اب کسی پر کوئی مقدمہ نہیں چلائیں گے اور 1971ء کی جنگ کے تمام واقعات اور کرداروں کو جوں کاتوں چھوڑ کر بھلا دیاجائے گا۔اس معاہدے پرحسینہ واجد کے باپ شیخ مجیب الرحمن نے بذات خود دستخط کیے تھے۔اس معاہدے پر 2009ء تک عمل ہوتارہاتاآنکہ حسینہ واجد نے 2008ء کے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کرنے کے بعد ڈھاکہ ہائیکورٹ کے اندر ایک خصوصی وارکرائم ٹریبونل قائم کرکے 1971ء کی جنگ کی تحقیقات کے نام سے مقدمات اور گرفتاریاں شروع کردیں۔ اس ٹریبونل کا قیام اوراس کے اغراض و مقاصد اور کام کاطریق کار اس قدر بھونڈااور یکطرفہ تھا کہ دنیا کی کئی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس کی مخالفت کیے بغیر نہ رہ سکیں۔عوامی لیگ نے 2008ء کے انتخابات میں اپنے منشور میں یہ شق شامل کی تھی کہ وہ 1971ء کی جنگ کے حوالے سے تحقیقاتی سلسلہ شروع کرکے اس میں ملوث لوگوںکو سزائیں دے گی لیکن عوامی سطح پر اس نکتے کو اہمیت نہیں مل سکی تھی ۔اس کی سب سے بڑی دلیل اس ٹریبونل سے سزائے موت پاکرشہادت سے ہمکنار ہونے والے بنگلہ دیشی قائدین کے لاکھوں کے جنازے ہیں جن میں سارا ملک ہی امنڈا نظر آتاہے جس نے نظریۂ پاکستان کو پھر سے زندہ کردیا ہے اور یوں ثابت ہوگیاہے کہ بنگلہ دیشیوں کی بڑی تعداد آج بھی محبان پاکستان کی دیوانی ہے۔
کیسی کمال حیرت کی بات ہے کہ بنگلہ دیش کے اس ٹریبونل کو قیام کے ساتھ ہی اقوام متحدہ تک نے اسے اپنے تعاون کی پیشکش کی۔اس سے آگے بڑھ کر یورپی یونین نے اس کے قیام و مقدمات کے حق میں 3 قرار دادیں منظور کیں۔ حدتویہ ہوئی کہ یورپین پارلیمنٹ کی لندن ایجنسی کی رکن جین لامبرٹ نے تویہ تک بیان دیا کہ” اسے امید ہے کہ یہ ٹریبونل انصاف کے اعلیٰ تقاضوں کوپورا کرے گا۔ ”یوں حسینہ واجد کو اپنے اس مذموم کام کے لیے صرف اسلام دشمنی کی بنیاد پر ساری کافردنیا سے حمایت حاصل ہوگئی۔تماشہ دیکھئے کہ وہی یورپی یونین اور اقوام متحدہ جیسے ادارے جو ساری دنیاسے سزائے موت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہیں اور جوکوئی ان کی اس حوالے سے نافرمانی کرے’ اس کو سخت پابندیوں کی دھمکیاں ملتی ہیں’وہی بنگلہ دیش میں عمررسیدہ عوامی قائدین اور معزز ترین شہریوں کو پھانسیاں لگوانے کے لیے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ اس ٹریبونل نے اپنے وطن کے شہری 91 سالہ سابق امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش پروفیسر غلام اعظم کو 90 سال قید کی سزا سنائی اور پھروہ اس پیرانہ سالی میں ہی جیل میں وفات پاگئے۔
22 نومبرکو محمدعلی احسن مجاہد اورصلاح الدین قادر کو سزائے موت دینے سے پہلے انہیں صدر سے معافی مانگنے کا کہا گیا۔ دونوں قائدین نے اپنے اہل خانہ کواپنی آخری ملاقات میں بتایاکہ انہیں جو معافی نامہ دیاگیاہے’ اس میں لکھا گیا ہے کہ وہ تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر بنگالی ہندؤوں’ عام شہریوں اور دیگر اہم دانشوروں کوقتل کیاتھا’خواتین کی عزتیں لوٹی تھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ وہ اپنے اس جرم پرنادم ہیںاور جرم تسلیم کرتے ہوئے معافی کی درخواست کرتے ہیں لیکن دونوں رہنماؤں نے اس پر دستخط کرنے یامعافی مانگنے سے ہی انکارکردیا اور پھر کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے پورے اطمینان وسکون کے ساتھ جرم بے گناہی میں ملنے والی سزائے موت کو قبول کرکے تختہ ٔدار پر پہنچ گئے۔
بنگلہ دیش میں اس وقت عدلیہ کی صورتحال یہ ہے کہ ملکی سپریم کورٹ کاچیف جسٹس ایک ہندو سریندر کمار سنہا نامی شخص ہے جو 17 جنوری 2015ء کواس عہدے پر متعین ہوا۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سنہا نے کئی بار بھارت کا دورہ بھی کیاہے کیونکہ مسٹرسنہا کے اول دن سے بھارت کے ساتھ بہت گہرے روابط ہیں۔اس سپریم کورٹ نے کرائم ٹریبونل سے سزا پانے والے قائدین کے مقدمات کوفوری طور پرسماعت کے عمل سے گزارکریکطرفہ طورپر ان کی سزائے موت کو برقرار رکھااور فوری عمل درآمد کروایا گیا۔ 22 نومبر 2015ء کودونوں قائدین کی پھانسی سے 3 روز پہلے یعنی 19 نومبر کو بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کاخصوصی تذکرہ کیااوراپنے بیان میں کہاکہ ”دونوں ملکوں کے تعلقات اس وقت اعلیٰ ترین درجے پرہیں اور اس کی وجہ 1971ء کی جنگ کے واقعات کی تحقیقات اور ردعمل پر دونوں ملکوں کایکسو ہونا ہے۔”
ان سزاؤں کے عمل میں چنگیزیت کی تاریخ یوں بھی رقم ہورہی ہے کہ بے گناہ ملزمان کو اپنے حق میں دلائل دینے کا بھی موقع نہیں ملتا۔صلاح الدین قادر جوکہ 2008ء تک مجموعی طور پر بنگلہ دیش کی پارلیمان کے 7 مرتبہ رکن منتخب ہوئے ‘ان کے خلاف استغاثہ کے 41 گواہ پیش کیے گئے جبکہ ان کے حق میں محض 4گواہوں کو بھی گواہی کاموقع تک نہیں دیاگیااور ان کی گواہیاں مکمل ہونے سے پہلے ہی سپریم کورٹ نے سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کاحکم جاری کردیا۔حسینہ واجد نے جب عبدالقادر ملاودیگر شخصیات کے لاکھوں کے جنازے او ر احتجاج دیکھا تو اس نے اب نئی پالیسی اپناتے ہوئے اب پھانسیوں کے بعد ملک کے اہم شہروں اور شہداء کے آبائی علاقوں میں کرفیو لگانااورانتہائی سختی سے عوام کے ساتھ نمٹنا شروع کر دیاہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخریہ کب تک چل سکتاہے…؟
حسینہ واجد جو ڈائن سے بھی بدترروپ دھارے ہوئے ہے’اب جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دینے کی تیاریاں کر رہی ہے لیکن ساری دنیا میں مکمل خاموشی ہے ۔دسمبر2013ء میں جماعة الدعوة کے زیراہتمام عبدالقادر ملاکے ملک بھر میں غائبانہ نمازجنازہ اداکیے گئے۔ محمداحسن مجاہد اور صلاح الدین قادرکی شہادتوں کے بعدبھی پروفیسرحافظ محمدسعید نے مرید کے میں ہزاروں کارکنان اور جماعتی قائدین کی معیت میں غائبانہ نمازجنازہ اداکی اور اس ظلم وجبر پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ ہر سلیم الفطرت انصاف پسند کایہ موقف ہے کہ اصل دہشت گرد توبھارت ہے جس نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی۔
مودی نے اس ریاستی دہشت گردی کافخریہ اعتراف کیاہے۔اس کے بعد یہ بحث بے معنی ہوچکی ہے کہ پاکستانی فوج سے کیاغلطیاں ہوئیں تھیں یا نہیں۔ اب ضرورت توبھارت اوربھارت نواز وں کے خلاف مقدمات کی ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہائی جارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر ذمہ داری اب ہر لحاظ سے پاکستان کی بنتی ہے کہ وہ پاکستان سے محبت کے جرم میں سزا پانے والے بے گناہ لوگوں کے لیے میدان میں آئے۔ 1974ء کے معاہدے پرعمل درآمد کے لیے عالمی سطح پر مہم چلائے’ مسلم دنیا کو ساتھ ملائے۔ ترکی کی حمایت بھی حاصل کی جائے جوپہلے ہی ان پھانسیوں کی مذمت کر رہا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کا تعاون اور دباؤ بھی سب سے کارگر اور مؤثر ہو سکتاہے ۔عین ممکن ہے کہ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ہم پربھی اپنے رحمتیں نچھاور کر دے۔
تحریر: علی عمران شاہین