تحریر : میر افسر امان
چند دن پہلے کراچی پریس کلب کے لان پر ہیومن رائٹس نیٹ ورک کراچی کے تحت ایک کانفرنس بنام” بنگلہ دیش میں را کا ایجنڈا اور محبّان پاکستان کا قتل” جناب (ر) جسٹس وجیہہ الدین کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ اس میں شہر کے معززین نے بڑی تعدادمیںشرکت کی۔ہمیں بھی ہیومن رائٹس ورک کراچی کے عہداداروں نے شرکت کی دعوت دی تھی۔ اس کانفرنس کی روداد قارئین کے سامنے پیش ہے۔ کانفرنس کی کاروائی اللہ کے بابرکت نام سے ہوئی ۔ اس کے بعد نعت رسول مقبول ۖ پیش کی گئی۔ مقررین میں جسٹس(ر) وجیہہ الدین کے علاوہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان، ہیومن رائٹس نیٹ ورک کراچی کے صدر انتخاب عالم سوری، جنرل سیکر ٹیری شہزاد مظہر،ڈاکٹر اقبال خلیل،نعیم قریشی ایڈوکیٹ، جمعیت علما اسلام کے قاری محمد عثمان، خاکسار تحریک کے خواجہ سلمان، پیپلز پارٹی کی ڈاکٹر شاہدہ راحٰمان ممبر قومی اسمبلی،حفیظ الدین ایڈوکیٹ ممبر صوبائی اسمبلی، شفیق جاموٹ ممبر صوبائی اسمبلی، ندیم شیخ ایڈوکیٹ ، ہیومن رائٹس کی مختلف تنظیموں کے عہدادار، ممبران کراچی پریس کلب اور کثیر تعداد میں اخبارات کے نمائندوں نے شرکت کی۔
اسطرح یہ ایک نمائندہ اجتماع تھا جس میں لوگوں نے دل کھول کر بنگلہ دیش میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے کرتوت بیان کئے۔ مقررین نے سب سے پہلے یہ ثابت کیا کہ بنگلہ دیش کے مجیب الرحٰمان، بھارت کی اندرا گاندھی اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹوکے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا۔اس میں یہ طے ہوا تھا کہ بنگلہ دیش کی جنگ کے متعلق کسی پر بھی جنگی مقدمات قائم نہیں کئے جائیں گے۔ اسی معاہدے کے تحت پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا۔ بین الاقوامی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے ،اور اپنے باپ کے معاہدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،بنگلہ دیش کی حکمران حسینہ واجد جو شیخ مجیب الرحٰمان کے خاندان کے قتل کے وقت واحد بچ جانے والی بیٹی ہے جو اُسوقت بنگلہ دیش میں موجود نہیں تھی، نے بھارت کی شہ پر محبّان پاکستان کا قتل عام شروع کیا ہوا ہے۔ جو نام نہاد انٹر نیشنل کرائم ٹریونل قائم کیا گیاہے وہ ایک طرف عالمی معار پر پور ا نہیں اترتا۔
دوسری طرف دنیا کی ہیومن رائٹس تنظیموں نے بھی اس کی جانب دار کارکردگی پر اعتراض کیا ہے۔ نہ تو نام نہاد ٹریوبنل کی کاروائی انٹرنیشنل معار کے مطابق ہے نہ ہی ججز غیر جانب دار ہیں۔ بنگلہ دیش کے ہندوچیف جسٹس نے خود کہا ہے کہ لوگوں پر بغیر ثبوت کے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں اور ان کو نا حق پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے۔مقررین نے کہا کہ بنگلہ دیش حکومت سیاسی انتقام میں تمام اخلاقی حدود پار کر چکی ہے اور را کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔محبّان پاکستان کا عدالتی قتل عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے لیے کھلا چلینج ہے۔ بنگلہ دیش میں مظالم کا ذکر تے ہوئے کہا گیا کہ چٹاگانگ سے تعلق رکھنے والے میجر اکبر چوہدری کی آنکھیں نکال کر پیٹ چیر کر قتل کیا تھا ہے۔
مولوی فرید احمد کو دھاکہ یونیورسٹی میں پندرہ دن حبس بے جا میں رکھ کر جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔گو کہ ہمیں تقریر کرنے کا موقعہ نہیں ملا مگر ہم نے بنگلہ دیش میں مکتی باہنی کے مظالم جو اس نے را کے کہنے پر کیے تھے، کو کئی کتابوں میں مطالعہ کیا ہے۔ایک کتاب ”البدر” جسے پروفیسر سلیم خالد نے بنگلہ دیش جا کر مکتی باہنی کے مظالم پر تحقیق کر کے لکھی ہے ،میں لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش مکتی باہنی کے سفاک درندوں نے ایک مجمع میں البدر کے ایک مجاہد کو پیش کیا۔ مجاہد کو قبر کھودنے کا کہا گیا۔
مجاہد نے مجمع کے سامنے قبر کھودی۔ اس قبر پر کھڑا کر کے اسے جیے بنگلہدیش کا نعرہ لگانے کا کہا۔ مجاہد نے جیے پاکستان کا نعرہ بلند کیا۔ پھر مجاہد کوبرابر پڑے کانٹوں کو قبر میں ڈالنے کے لیے کہا گیا۔ مجاہد نے کانٹے قبر میں ڈالے ۔مکتی باہنی کے کارکنوں نے مجاہد سے پھر جیے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا۔ مجاہد نے پھر بھی جیے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ اُسی مجمع کے سامنے زندہ مجاہد کو کانٹوں والی قبر میں ڈال کر اوپر مٹی ڈال کر دفن کر دیا گیا۔ ایک اور البدر مجاہد کو بھی اسی طرح ایک مجمع میں لایا گیا اسے بھی قبر کھودنے کا کہا۔ مجاہد نے قبر کھودی۔ مکتی باہنی کے درندہ سفت وحشیوں نے مجاہد کو جیے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا۔
اس مجاہد نے بھی جیے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ اُس کا ایک بازو کاٹا گیا ۔ پھر بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا۔ مجاہد نے پھر جیے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ مجاہد کا دوسرا بازو بھی کاٹا گیا اور جیے بنگلہ دیش کا نعرہ لگانے کا کہا ۔ مجاہد نے پھر بھی جیے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ اس کے بعد فائرنگ کر کے اس شہید کیا گیا اور قبر میں دفن کر دیا گیا۔مکتی باہنی کے محبّان پاکستان پر بہت سے کتابیںلکھی گئیں ہیں جس میں سے ایک انگریزی میں لکھی گئی کتابthe wastes of timeکا ترجمہ” شکست آرزو” کے نام سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے کیاہے۔ یہ کتاب ڈھاکا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر سید سجاد حسین نے لکھی ہے۔ یہ کتاب ظلم اور سفاکیت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے جس میں مصنف بھی شامل ہے۔ مقررین نے اپنی تقریروں میں کہا کہ قادر صدیقی کے کہنے پر نظریہ پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر بدترین تشدد کے ذریعے بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں قتل کیا گیا۔
ان واقعات پر بنگلہ دیش حکومت نے ماورائے قانون اقدامات کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ انسانی حقوق کی کانفرنس کے شرکاء نے مطالبہ کیا کہ جنگی جرائم کے ٹرائل کے معاملے کو انٹر نیشنل سطح پر اُٹھایا جائے۔اس پر ایک انٹر نیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کی چھان بین کرے کہ١٩٧١ء کی جنگ میں مکتی باہنی بنانے میں را نے کیا کردار ادا کیا؟ اقوام متحدہ بنگلہ دیش شہریوں کے قتل عام کو رکوائے اور مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کے آڈر کو معطل کروائے۔ کانفرنس کے شرکاء نے نواز حکومت کے کردار کی بھی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ سفارتی سطح پر محبّان پاکستان کے مسئلے کو اُٹھایا جائے اور احتجاج کے طور پر بنگلہ دیش کے سفارت خانوں کو بند کیا جائے۔
اُدھر اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے امیر اور سینیٹر سراج الحق نے ایک بڑے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سقوط غرناطہ کے بعد سقوط ڈھاکا امت کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔ آج پوری ملت اسلامیہ کو اس سانحے کا رنج ہے۔حکمرانوں کی غیرت اور ضمیر سو رہا ہے۔ بے ضمیر حکمران متحدہ پاکستان پر نچھاور کرنے والوں کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے جنہوں نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو متحدہ پاکستان پر نچھاور کر دی۔
حکومت ١٩٧١ء کے معاہدے کے تحت بنگلہ دیش میں پھانسیاں رکوائے۔اگر جرأت ہے تو بنگلہ دیشی حکومت بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلائے۔جس حکمران نے نظریہ پاکستان سے غداری کی نشان عبرت بنا۔ ملک دشمن عناصر ایٹمی طاقت سے نہیں مدارس اور اسلامی نظام سے خائف ہیں۔حسینہ واجد را کے کہنے پر اب ہماری فوج کے جوانوں پر مقدمے قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ فوراًکاروائی کر کے اس کا سد باب کرے۔
تحریر : میر افسر امان