پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع درگاہ حضرت سید سخی مخدوم شاہ بلاول نورانی کی درگاہ کے احاطے میں خود کش حملے کی ذمے داری داعش نامی تکفیری گروہ نے قبول کی ہے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کو فون پر پیغام دیا گیا کہ یہ حملہ داعش نے کیا۔
صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع درگاہ حضرت سخی سید مخدوم شاہ بلاول نورانی کی درگاہ کے احاطے میں خود کش حملے کی ذمے داری داعش نامی تکفیری گروہ نے قبول کی ہے۔
ذرائع کے مطابق، غیرملکی خبررساں ادارے کو فون پر پیغام دیا گیا کہ یہ حملہ داعش نے کیا ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیرمیر حاصل بزنجو جو بلوچستان کی نیشنل پارٹی کے سربراہ اور حکمران اتحاد میں شامل اہم رکن بھی ہیں، نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ حملہ گذشتہ دنوں کالعدم جنداللہ نامی گروہ کے امیر کی ہلاکت کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب متعلقہ سرکاری حکام نے انکشاف کیا ہے کہ 5 نومبر کو تحریری تھریٹ الرٹ کے ذریعے خبردار کر دیا گیا تھا کہ ایک خاتون خودکش حملہ آور افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوچکی ہے۔درگاہ شاہ نورانی کے سانحہ کی ایک عینی شاہدہ (خاتون) نے بتایا ہے کہ دھماکے سے تھوڑی دیر پہلے ایک عورت قریب سے یہ کہتے گذری کہ یہاں سے دور ہوجاؤ ورنہ بہت برا ہوگا۔اس بیان سے شبہ ہوتا ہے کہ خود کش حملہ آور ممکنہ طور پر کوئی خاتون بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن جہاں تک داعش کی بات ہے تو یہ ایک ایسا تکفیری گروہ ہے جو سعودی عرب کے محمد بن عبدالوہاب نجدی کی پیروی کرتا ہے اور نجدی کی کتابیں اور تعلیمات کی تبلیغ کرتا ہے۔
جبکہ کالعدم لشکر جھنگوی در حقیقت پاکستان کالعدم سپاہ صحابہ کے بانی حق نواز جھنگوی کے نام پر بنایا گیا تکفیری گروہ ہے۔یاد رہے کہ یہ گروہ ریاض بسرا اور اس کے ساتھیوں نے 1990 کے عشرے میں افغانستان میں اس وقت بنایا جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔
کالعدم سپاہ صحابہ اِن دنوں اہلسنت والجماعت کے نام سے کام کر رہی ہے۔ سپاہ صحابہ اہلسنت والجماعت کا نام استعمال کرکے جہاں اہلسنت برادران کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے وہیں شیعہ سنی عوام کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کے بھی درپے ہے۔
یاد دلایا جاتا ہے کہ لشکر جھنگوی کا خطرناک ترین دہشت گرد ملک اسحاق جو لدھیانوی گروہ کا نائب صدر تھا، عرصہ پہلے ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا تو خبریں یہ آئیں کہ اس نے داعش سے اتحاد کرلیا تھا۔ اسی ملک اسحاق گروہ کو کالعدم سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر شمس الرحمان معاویہ کے قتل میں ملوث بھی بتایا گیا تھا۔ جس کے تحت کالعدم لشکر جھنگوی کے نائب سربراہ سید غلام رسول شاہ کو بہاوالنگر سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔
یعنی داعش، لدھیانوی کی اہلسنت و الجماعت (سپاہ صحانہ) یا لشکر جھنگوی یا جو بھی تکفیری گروہ ہو، درپردہ ایک ہی ایجنڈے پرعمل پیرا رہے ہیں یعنی مسلمانوں کو کافر کہہ کر مارنا اور چونکہ سنی و شیعہ مسلمان بزرگان دین کے مزارات مقدسہ پر بصد ادب و احترام حاضری دیتے ہیں، اس لئے یہ تکفیری گروہ انہیں صرف اس ایک وجہ سے مشرک بھی قرار دیتے ہیں۔
یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ سعودی عرب کا سرکاری مسلک وہابیت ہے یعنی وہی عبدالوہاب نجدی سعودی عرب کا بھی فکری گاڈفادر ہے اور اس نے اور اس کے پیروکاروں نے مکہ و مدینہ سے کربلا تک اہلبیت نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سمیت متعدد بزرگان دین کے مزارات مسمار کیے تھے اور موجودہ سعودی بادشاہت نے آج تک وہ مزارات جو جنت البقیع و جنت المعلی مکہ میں وہابیت نے مسمار کیے، انہیں نئے سرے سے تعمیر نہیں کروایا اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے دباؤ کے باوجود دیگر ممالک کی طرف سے اس کی تعمیر نو کی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں بزرگان دین بالخصوص حضرت عبداللہ شاہ غازی (کراچی)، حضرت عبداللطیف کاظمی المعروف بری سرکار اسلام آباد، بابا فرید گنج شکر پاک پتن، داتا دربار لاہور، ڈیرہ غازی خان اور صوبہ بلوچستان میں دیگر درگاہوں پر اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں پشتو زبان کے بزرگ شاعر رحمان بابا، لاہور کے سنی بریلوی عالم دین مفتی سرفراز نعیمی سمیت متعدد مسلمان بزرگان پر خود کش حملے اور دھماکے بھی انہی تکفیری گروہوں نے کروائے تھے تب داعش القاعدہ کےنام سے ہی کام کررہی تھی۔
پاکستانیوں کی رائے یہ ہے کہ بزرگان دین کے مزارات مقدسہ کو اور عام مسلمانوں کی جان، مال و عزت کو تکفیریوں سے بچانے کے لئے دنیائے اسلام کی جانب سے سعودی بادشاہت پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک سعودی بادشاہت مکہ و مدینہ میں بزرگان دین کے مزارات مقدسہ کی بے حرمتی سے توبہ نہیں کرے گی اور وہاں مزارات مقدسہ کی تعمیر نو کرکے عام مسلمانوں کو ان کے عقیدے کے مطابق زیارت کا حق تسلیم نہیں کریں گے، تب تک دنیا بھر میں عالم اسلام کے بزرگان دین کے مزارات مقدسہ پر ہر حملہ سعودی بادشاہت کے سرکاری مذہب کے عین مطابق قرار دیا جاتا رہے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تکفیریوں کے ناموں کے ساتھ ان کے اصل سرپرست ملک سعودی بادشاہت کا نام لیا جائے کیونکہ دیگر ممالک کو بزرگان دین کے مزارات سے کوئی خاص دشمنی نہیں سوائے اس ایک تنگ نظر مسلک کے۔
خبررساں ادارے کو دئے گئے مقالے میں درگاہ شاہ نورانی کے اصل ذمے داروں کے بارے میں نکتہ نظر پیش کیا ہے جو من و عن پیش خدمت ہے۔